تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فَاِنَّ لَکِ بِاَوَّلِ قَطْرَۃٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِھَا اَنْ یُّغْفَرَ لَکِ مَاسَلَفَ مِنْ ذُنُوْبِکِ قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلَنَا خَاصَّۃً اَھْلِ الْبَیْتِ اَوْلَنَا وَلِلْمُسْلِمِیْنَ قَالَ بَل لَّنَا وَلِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (رواہ البزار وابوشیخ بن حبان بن کتب الضحایا وغیرہ الترغیب والترہیب للمنذری) حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ نے (اپنی صاحب زادی) حضرت سیدہ فاطمہ ؓ سے (قربانی کے وقت) فرمایا کہ اے فاطمہ کھڑی ہو اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ کیوں کہ اس کے خون کے پہلے قطرہ کی وجہ سے تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت سیدہ فاطمہ ؓ نے سوال کیا، یارسول اللہﷺ کیا یہ فضیلت صرف ہمارے لیے یعنی اہل بیت کے واسطے مخصوص ہے یا سب مسلمان کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا، یہ فضیلت ہمارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ (الترغیب والترہیب للحافظ المنذری ص ۱۰۲ ج ۲) ۵۰۔ وَعَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ ؓ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیْ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ ؑ قَالُوْ فَمَالَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الْصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔ (رواہ احمد و ابن ماجہ) حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرات صحابہ ؓ نے سوال کیا یارسول اللہﷺ ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے، آپ نے فرمایا، یہ طریقہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ سے جاری ہوا ہے اور یہ ان کا طریقہ چلا آرہا ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم کو ان میں کیا ملتا ہے؟ فرمایا، ہر بال کے بدلہ ایک نیکی! عرض کیا اون والے جانور یعنی بھیڑ، دنبہ کے ذبح پر کیا ملتا ہے؟ فرمایا، ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ملتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۱۲۹ بحوالہ ابن ماجہ و احمد) ۵۱۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ؓ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَّوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ وَاِنَّہٗ لِیَاتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلَا فِھَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیْبُوْابِھَا نَفْسًا۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ) حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا کہ بقر عید کی دس تاریخ کو کوئی بھی نیک کام اللہ کے نزدیک (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے دن قربانی والا اپنے جانور کے بالوں اور سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں ثواب عظیم کا ذریعہ بنیں گی) نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۱۲۸ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ)قربانی کی ابتدا : حضرت ابراہیم خلیل اللہ W نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کررہا ہوں، نبیوں کا خواب سچا ہوتا تھا اور اللہ کی جانب سے ہوتا تھا، ایسی بات اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیئے جانے کے مترادف مانی جاتی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے تمہاری کیا رائے ہے، بیٹے نے جواب دیا: {یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo}1 (1 الصافات: ۱۰۲ یعنی اے ابا جان آپ کو جو حکم ہوا اس پر عمل کرلیجیے آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں