تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مرض کے لیے روزہ مضر بھی نہ ہو۔ دوم یہ کہ فاسق اور بے دین بلکہ بددین ڈاکٹروں کے قول کا اعتبار کرلیتے ہیں، ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں کہ روزہ نہ رکھئے گا۔ ان ڈاکٹروں کو روزہ کی نہ قیمت معلوم ہے نہ شرعی مسئلہ کی صحیح صورت کا علم ہے، نہ خود رکھنے کی عادت ہے، نہ ان کے دل میں کسی مومن کے روزے کا درد ہے۔ ایسے لوگوں کے قول کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔ چوں کہ عموماً ڈاکٹر آج کل فاسق ہی ہیں اس لیے مریض کو اپنی ایمانی صوابدید سے اور کسی ایسے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے فیصلہ کرنا چاہیے جو خوف خدا رکھتا ہو، اور جو مسئلہ شرعیہ سے واقف ہو، سوم یہ کوتاہی عام ہے کہ بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر رکھتے ہی نہیں اور بہت بڑی گناہگاری کا بوجھ لے کر قبر میں چلے جاتے ہیں۔مسافر : مسافر جو مسافت قصر کے ارادے سے اپنے شہر یا بستی سے نکلا جب تک سفر میں رہے گا مرد ہو یا عورت چار رکعتوں والی نمازوں کی جگہ دو رکعتیں فرض پڑھے گا، ہاں اگر کسی ایسے امام کے پیچھے جماعت میں شریک ہوجائے جو مسافر نہ ہو تو پوری نماز پڑھنی ہوگی، نیز اگر کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلی تو مسافر کے حکم میں نہیں رہے گا اور پوری نماز پڑھنی ہوگی۔ مسافت قصر ۴۸ میل ہے، اتنی دور کا ارادہ کرکے روانہ ہوجانے پر شرعی مسافر ہے جب کہ اپنے وطن سے نکل جائے اتنی دور کا مسافر خواہ پیدل سفر کرے، خواہ بس سے، خواہ ہوائی جہاز سے یا اور کسی تیز رفتار سواری سے، شرعی مسافر مانا جائے گا، شریعت نے نماز قصر کی بنیاد مسافت قصر پر رکھی ہے۔ اگرچہ تکلیف نہ ہو تب بھی ۴۸ میل کا مسافر چار رکعت والے فرض کی جگہ دو رکعتیں پڑھے، اگر پوری چار رکعتیں پڑھ لیں تو برا کیا۔ یہ مسئلہ نماز قصر کے بیان میں بھی گزر گیا ہے۔ یہاں روزہ کے بارے میں مسافت قصر بتانے کے ذیل میں دوہرایا گیا ہے۔ mجس مسافر کے لیے چار رکعت والی نماز فرض کی جگہ دورکعت پڑھنا ضروری ہے اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ رمضان شریف کے موقع پر سفر میں ہوتو روزہ نہ رکھے اور بعد میں گھر آکر چھوڑے ہو ئے روزوں کی قضا کرلے۔ خواہ ہوائی جہاز یا موٹر کار سے سفر کیا ہو اور خواہ کوئی تکلیف محسوس نہ ہوتی ہو۔ اگر کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے گا تو مسافر نہ ہوگا جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت سے لوگ جس طرح مرض کی حالت میں روزہ چھوٹ جانے پر بعد میں قضا نہیں رکھتے اسی طرح لوگ سفر میں روزہ چھوڑ کر بعد میں گھر آکر قضا نہیں رکھتے اور گناہ گار مرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ}1 (1 البقرۃ: ۱۸۵ جو شخص اس ماہ میں موجود ہو وہ ضرور اس میں روزہ رکھے اور جو شخص بیمار ہو یا سفر