تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پڑھتے ایسی عمر کو پہنچ گیا کہ اسے دنیا کا ذوق لگ گیا اور ماں باپ کی گرفت سے آزاد ہوگیا تو اب اسے صحیح راہ پر چلنا نہایت دشوار معلوم ہوتا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ شروع ہی سے دینی ذہن بنایا جائے اور آخرت کے کاموں پر لگایا جائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اولاد کو نماز کے لیے کہتے ہیں۔ مگر کوئی پڑھتا ہی نہیں، ان کا یہ کہنا بالکل عذر لنگ ہے۔ اول تو کہنے کی طرح کہتے نہیں، صرف منہ چھوتے ہیں، حالاں کہ حدیث میں ارشاد ہے کہ بچے دس سال کے ہوجائیں تو نمازنہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کرو۔ اگر بچہ سے ایک دو آنہ کا نقصان ہوجائے تو ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، دو چار لگا کر دم لیتے ہیں لیکن نماز کے لیے صرف ہلکے سے لہجے میں کہہ دیتے ہیں، اس بارے میں ڈانٹ ڈپٹ کو بھول جاتے ہیں۔ اگر آخرت کی اہمیت ہوتی تو نماز کے ناغہ کرنے کو دنیا کے کسی بھی مقابلہ میں بہت بڑا نقصان سمجھتے اور اس کے لیے فکرمند ہوتے۔ اگر تمہارا لڑکا دین کے طریقہ پر چل کر دوزخ سے بچ گیا اور دنیا میں بھوکا رہا تو یہ بڑی کامیابی ہے اور اگر اس نے لاکھوں روپیہ کمایا اور بڑی بلڈنگیں بنائیں مگر خدا سے دور رہ کر اور گناہوں میں پڑ کر دوزخ مول لی تو اس کے لیے جائیداد بیکار بلکہ وبال ہے۔ عورتوں کی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اولاد کو دین دار بنادیں اور دوزخ سے بچادیں، ہر بچہ کم از کم نو دس سال تو اپنی ماں کے پاس ہی رہتا ہے۔ اس عمر میں اسے دین کی باتیں سکھادو اور دین دار بنادو، اگر اولاد دین دار ہوگی تو تمہارے لیے دعا کرے گی اور جو دینی علم تم نے سکھایا تھا اس پر عمل کرے گی تو تم کو بھی اجر و ثواب ملے گا۔سب سے پہلا مدرسہ ماں باپ کی گود ہے : بچوں کی تعلیم اور تربیت یعنی ان کو دین کا علم سکھانے اور دین کا عمل کرکے دکھانے اور عمل کا شوق پیدا کرنے کا سب سے پہلا مدرسہ ان کا اپنا گھر اور ماں باپ کی گود ہے۔ ماں باپ، عزیز قریب بچوں کو جس سانچے میں چاہیں ڈھال سکتے ہیں اور جس رنگ میں چاہیں رنگ سکتے ہیں۔ بچہ کا سنوار اور بگاڑ دونوں گھر سے چلتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے اصلی ذمہ دار ماں باپ ہی ہیں۔ بچپن میں ماں باپ ان کو جس راستہ پر ڈال دیں گے اور جو طریقہ بھلایا برا سکھادیں گے، وہی ان کی ساری زندگی کی بنیاد بن جائے گا۔ بچہ کے دل میں خدا کا خوف، خدا کی یاد، خدا کی محبت اور آخرت کی فکر اسلام کے حکموں سے سیکھنے سکھانے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ پیدا ہوجانے کی پوری پوری کوشش کرنا لازم ہے، اس کو نیک عالموں اور حافظوں کی صحبتوں میں دین کی تعلیم دلاؤ، قرآن شریف حفظ کراؤ، قرآن و حدیث کے معنی اور مطلب سمجھنے کے لیے عربی پڑھاؤ، ان کو حرام سے پرہیز کراؤ اور دیانت داری، حیا، شرم، سخاوت، صبر،