تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
(۱) اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ (۲) جادو کرنا۔ (۳)اس جان کو قتل کرنا جس کا قتل اللہ نے حرام فرمادیا، مگر یہ کہ حق کے ساتھ ہو۔ (جس کو علماء اور شرعی قاضی جانتے اور سمجھتے ہیں) (۴) سود کھانا۔ (۵) یتیم کا مال کھانا۔ (۶) میدان جہاد سے پشت پھیر کربھاگ جانا۔ (۷) پاک باز مومن عورتوں کو تہمت لگانا۔ (جو برائیوں سے) غافل ہیں۔ (بخاری و مسلم) یعنی جو عورتیں پاکبازاور عصمت والی ہیں ان کو تہمت لگانا، ان بڑے بڑے گناہوں میں شامل ہے، جو ہلاک کردینے والے ہیں، یعنی دوزخ میں پہنچانے والے ہیں، ان کو تہمت لگانا، اس لیے سخت ہے کہ انھیں برائی کا دھیان تک نہیں ہے اور جنھیں زبان پر قابو نہیں، مرد ہوں یا عورت وہ ان بے چاریوں پر تہمتوں کے گولے پھینکتے رہتے ہیں، اگرچہ کسی ایسی عورت پر بھی تہمت لگانا درست نہیں جس کا چال چلن مشکوک ہو۔نقل اتارنے پر تنبیہ : (۲۰۳) وَعَنْ عَائِشَۃً رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھَا قَالَتْ قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَسْبُکَ مِنْ صَفِیَّۃَ کَذَا وَکَذَا تَعْنِیْ فَصِیْرَۃَ فَقَالَ لَقَدْ قُلْتِ کَلِمَۃً لَوْ مُزِجَ بِھَا الْبَحْرُ لَمَزَجَتْہُ قَالَتْ وَحَکَیْتُ لَہٗ اِنْسَانًا فَقَالَ مَااُحِبُّ اَنِّیْ حَکَیْتَ اِنْسَانًا وَاَنَّ لِیْ کَذْا وَکَذَا۔ (رواہ ابودائود) ’’حضرت عائشہؓ کابیان ہے کہ میں نے (ایک مرتبہ کسی موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کردیا کہ صفیہ بس اتنی سی ہے (یعنی اس کے حسن وغیرہ کی کوئی مزید خامی بتانے کی ضرورت نہیں ہے پستہ قد ہونا ہی کافی ہے) یہ سن کر رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو سمندر کو بھی بگاڑ ڈالے، یہ واقعہ بتاکر حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے ایک مرتبہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی نقل اتاری، اس پر سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ کسی شخص کی نقل اتاروں، اگرچہ مجھے ایسا کرنے پر (دنیا کی) اتنی اتنی دولت مل جائے۔ ‘‘ (سنن ابودائود، ص ۳۱۲ ج ۲ باب فی الغیبۃ کتاب الادب)تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کے قد و قامت، ہاتھ پائوں، ناک، کان وغیرہ کو عیب دار بتانا (اگرچہ واقعتا عیب دار ہو) اور کسی کی بات یا چال ڈھال کی نقل اتارنا گناہ ہے، اور سخت ممنوع ہے، عام طورسے کسی کے ہکلانے یا لنگڑا کر چلنے یا توتلانے یا نظر گھمانے کی نقل اتاری جاتی ہے، اور اس میں کچھ حرج نہیں