تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوں اور تعمیل ارشاد کے لیے موجو دہوں۔ حضرت قتادہؓ نے قَوْلاًَ کَرِیْمًا کی تفسیر میں فرمایا: قَوْلاًَ لَیِّنَا سَھْلَاَ کہ نرم لہجہ میں سہل طریقہ پر بات کرو۔ حضرت سعید بن المسیبؒ نے فرمایا کہ خطاکار زر خرید غلام جس کا آقا سخت مزاج ہو جس طرح اس غلام کی گفتگو آقا کے ساتھ ہوگی، اسی طرح ماں باپ سے بات کی جائے تو قولاً کریماً پر عمل ہوسکتا ہے۔ (تفسیر درمنشور) سوم یہ ارشاد فرمایا کہ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِ مِنَ الرَّحْمَۃِ یعنی ماں باپ کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا، اس کی تفسیر میں حضرت عروہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تو ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ ان کی جو دلی رغبت ہو اس کے پورا ہونے میں تیری وجہ سے فرق نہ آئے۔ اور حضرت عطا بن ابی رباح رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ماں باپ سے بات کرتے وقت نیچے اوپر ہاتھ مت اٹھانا (جیسے برابر والوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے اٹھاتے ہیں۔) اور حضرت زبیر بن محمدؒ نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ماں باپ اگر تجھے گالیاں دیں اور برا بھلا کہیں تو توجواب میں یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے۔ چوتھی نصیحت یہ فرمائی کہ ماں باپ کے لیے یہ دعاکرتے رہا کرو رَبِّ اِرْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما، جیساکہ انھوں نے مجھے چھوٹے سے کو پالا اور پرورش کیا، بات یہ ہے کہ کبھی اولاد حاجت مند تھی جو بالکل ناسمجھ تھی، اس وقت ماں باپ نے ہرطرح کی تکلیف سہی اور دکھ سکھ میں خدمت کرکے اولاد کی پرورش کی۔ اب پچاس ساٹھ سال کے بعد صورتحال الٹ گئی کہ ماں باپ خرچ اور خدمت کے محتاج ہیں، اور اولاد کمانے والی، روپیہ پیسہ اور گھر بار اور کاروبار والی، اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی خدمت سے نہ گھبرائے اور ان پرخرچ کرنے سے تنگ دل نہ ہو، دل کھول کرجان و مال سے خدمت کرے، اور اپنے بچپن کا وقت یاد کرے اور اس وقت انھوں نے جو تکلیفیں اٹھائیں ان کو سامنے رکھے، اور بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کرے کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے مجھے بچپن میں پالا، اور پرورش کیا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ کو کمر پر اٹھائے ہوئے طواف کرا رہا تھا، اس نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا میں نے اس طرح خدمت کرکے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟ آپ نے فرمایا کہ ایک سانس کا حق بھی ادا نہیں ہوا۔ (تفسیر ابن کثیر ص ۳۵ ج ۳)سورئہ لقمان میں ارشاد ہے : وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدََیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّفِصَالُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَالِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُo وَاَنْ جَاھَدَاکَ عَلَی اَنْ تُشْرِکَ بْیِ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاََ تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا