تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باہر نکلنے والی عورت پر شیطان کے توجہ دلانے پر اپنی نظریں گاڑ دیتے ہیں، جیسے مردوں کے ذمہ مال کمانا اور ضرورت کی چیزیں فراہم کرکے لانا ہے، کیوں کہ وہ باہر نکلتے ہیں، اسی طرح سے مساجد میں نماز باجماعت کی ادائیگی بھی ان کے ذمہ لازم کردی گئی ہے اور عورت کے لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر سے نہ نکلے، ہاں اگر کوئی بہت ہی مجبوری ہو تو خوب زیادہ پردہ کے اہتمام کے ساتھ نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ دیکھئے حدیث میں فرمایا ہے کہ عورت کو اللہ کی نزدیکی سب سے زیادہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو اور عورت کی وہ نماز سب سے بہترہے جو اندر در اندر بالکل آخری کمرہ میں ہو اور محلہ کی مسجد میں جاکر جماعت میں شریک ہوکر نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے گھر میں سب سے زیادہ اندر والے کمرہ میں نماز پڑھے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: وَمَا عَبَدَتِ امْرَاۃٌ رَّبَھَا مِثْلَ اَنْ تَعْبُدَہٗ فِیْ بَیْتِھَا۔ یعنی عورت اپنے رب کی عبادت گھر میں کرتی ہے، اس سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی عبادت نہیں ہے۔(الطبرانی باسناد حسن کما قال المنذری)حضرت اُمِّ حمیدؓ کو ہدایت نبوی : حضرت اُمِّ حمیدؓ ایک صحابی عورت تھیں۔ انھوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کومحبوب رکھتی ہوں آپ نے فرمایا، مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہو، حالاں کہ تمہارا کمرے میں نماز پڑھنا دالان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور دالان میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا تمہارے اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارے اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجدمیں آکر نماز پڑھو۔ (راوی کا بیان ہے کہ) یہ بات سن کر حضرت اُمِّ حمیدؓ نے اپنے نماز پڑھنے کی جگہ اپنے گھر کے بالکل آخری اندرونی حصہ میں مقرر کرلی جہاں خوب تاریکی تھی اور موت آنے تک برابر اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔ (الترغیب والترہیب بروایت احمد و ابن خزیمۃ وابن حیان) اس زمانے کی عورتوں میں دین کی باتوں پر عمل کرنے کا جذبہ تھا۔ انھوں نے سرور عالمﷺ کی بات سن کر اپنے گھرمیں بالکل اندر در اندر نماز کی جگہ بنالی اور وہیں نماز پڑھتی رہیں۔ آج کل کی عورتیں حدیثیں بھی سنتی ہیں، کتابیں بھی پڑھتی ہیں اور جو شریعت میں پردہ کی اہمیت ہے اسے بھی جانتی ہیں لیکن پھر بھی عمل کرنے سے گریز کرتی ہیں، اول تو عورتوں کو دینی زندگی گزارنے کی خاص رغبت ہی نہیں رہی اور جن کو دین کی طرف توجہ ہے وہ بھی دینی احکام کو طبیعت کے مطابق ادا کرنا چاہتی ہیں، شریعت کے مطابق انجام دینے کا ارادہ نہیں کرتیں، حالاں کہ طبیعت پر چلنے میں ثواب نہیں ہے، شریعت پر چلنے میں ثواب ملتا ہے۔