تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرح وضو کرے (سنتوں کا خیال رکھے اور پانی خوب دھیان سے سب جگہ پہنچائے) پھر کھڑے ہوکر اس طرح دو رکعت نماز پڑھ لے کہ ظاہر و باطن کے ساتھ ان دو رکعتوں کی طرف متوجہ رہے تو اس کے لیے جنت واجب ہوگی۔ (صحیح مسلم) معلوم ہوا کہ وضو کے بعد دو رکعتیں خوب خشوع و خضوع کے ساتھ دل لگا کر پڑھنے کا بہت بڑا ثواب ہے، اگرچہ بعض فقہا نے یہ بھی لکھا ہے کہ وضو کے بعد جو سنت یا فرض پڑھ لے تو اس سے بھی تحیۃ الوضو کا ثواب مل جائے گا، جیسے تحیۃ المسجد کا ثواب اس طرح مل جاتا ہے، لیکن دونوں حدیثیں جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں ان کے طرز بیان سے۔۔۔۔۔ یہی معلوم ہوتا ہے کہ تحیۃ الوضو کی رکعتیں مستقل ہونی چاہئیں۔ تحیۃ الوضو پڑھے تو یہ دیکھ لے کہ مکروہ وقت تو نہیں ہے، زوال کے وقت نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور صبح صادق ہونے کے بعد سورج نکل کر بلند ہوجانے تک نفل پڑھنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح نماز عصر کے بعد سورج چھپ جانے تک نفل پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ان وقتوں میں تحیۃ الوضو نہ پڑھے، خوب سمجھ لو، بعض فقہا نے لکھا ہے کہ وضو کا پانی اعضاء سے خشک ہونے سے پہلے تحیۃ الوضو پڑھ لے، اس کا خیال رکھنا بھی بہتر ہے۔ حضور اقدسﷺ نے خواب میں حضرت بلالؓ کے جوتوں کی آہٹ اپنے آگے جنت میں سنی کیوں کہ حضرت بلالؓ بہ طور خادم خاص بیداری میں آں حضرتﷺ کے ساتھ رہتے تھے، اور بعض ضروری امور کی انجام دہی کے لیے آگے آگے چلاکرتے تھے، اس میں حضرت بلالؓ کے جنتی ہونے کی اور اس امر کی بشارت ہے کہ وہ جس طرح دنیا میں حضور اقدسﷺ کے قریب تر رہنے والے تھے، آخرت میں بھی ان کو قرب خاص نصیب ہوگا، چوں کہ نبیوں کا خواب وحی ہوتا ہے، اس لیے اس عظیم خوش خبری کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ۔ (من الفتح الباری) بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت بلالؓ نے بتایا کہ سب سے زیادہ امید والا یہ عمل ہے کہ جب وضو کرتا ہوں اپنے مقدور کی نماز پڑھتا ہوں تو حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بھذا یعنی اس عمل کی وجہ سے تم کو یہ فضیلت حاصل ہوئی، چوں کہ یہ فضیلت مخصوص عمل یعنی ہر وضو کے بعد نماز کا اہتمام کرنے سے ملی اس لیے سب حضرات کو یہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔صلوٰۃ التسبیح : نفل نمازوں میں اس نماز کی بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ سے فرمایا کہ اے عباس ! اے چچا جان! کیا میں آپ کو ایک عطیہ دوں، کیا میں آپ کو بخشش کروں؟ کیا میں آپ کو بہت مفید چیز سے باخبر کروں؟ کیا میں آپ کو ایسی چیزدوں کہ جب تم اس کو کرلوگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سب گناہ پہلے