تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے دے دو۔ قرآن وحدیث میں لفظ صدقہ فرض زکوٰۃ کے لیے اور صدقہ نافلہ یعنی خیر خیرات دونوں مراد ہوسکتے ہیں ۔زکوٰۃ کس پر فرض ہے : زکوٰۃ ہر اس بالغ مرد و عورت پر فرض ہے جو بہ قدر نصاب شرعی مال کا مالک ہو، خواہ مال اس کے پاس ہو خواہ بینک میں رکھا ہو، خواہ نقدی ہو، خواہ نوٹ ہو، خواہ سونا چاندی ہو، جتنے روپے یا مال کے عوض ساڑھے باون تولہ چاندی آسکتی ہو اس کو نصاب کہتے ہیں ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے رئیس کبیر اور امیر و دولت مند ہی پر زکوٰۃ فرض ہے۔ حالاں کہ فرضیت زکوٰۃ کے لیے بہت بڑا مال دار ہونا ضروری نہیں ہے، غور کرلو کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کتنے روپے میں آسکتی ہے۔ اگر دس روپے تولہ بھی ہوتو ساڑھے پانچ سو روپے کے اندر اندر آجائے گی، بہت سی عورتوں کے پاس اتنا مال ہوتا ہے مگر زکوٰۃ ادا نہیں کرتی ہیں اور عمر بھر گناہ گار رہتی ہیں اور اسی گناہ میں مبتلا ہوتے ہوئے مر جاتی ہیں ۔ اگر نقدی نہ ہو تو زیور تو ہوتا ہی ہے جو میکہ اور سسرال سے ملتا ہے، اس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مگر ادا نہیں کی جاتی، یہ زیور آخرت میں وبال جان بنے گا تو پچھتاوا ہوگا۔ اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ! 1سامان تجارت پر بھی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے۔ 2اگر نہ کچھ نقدی موجود ہے نہ سامان تجارت ہے نہ چاندی ہے اور صرف سونا ہے تو جب تک ساڑھے سات تولہ سونا نہ ہو زکوٰۃ فرض نہ ہوگی۔ لیکن اگر کچھ چاندی اور کچھ سونا ہے یا کچھ سونا ہے کچھ نوٹ رکھے ہیں یا کچھ سونا چاندی ہے اور کچھ سامان تجارت اور ان صورتوں میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت ہوجاتی ہے تو زکوٰۃ فرض ہوجائے گی، اس کو خوب سمجھ لو۔ اس مسئلہ کی رو سے اکثر عورتوں پر زکوٰۃ فرض ہے جن کے پاس تھوڑا بہت زیور ہے، ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہیے کہ اپنی مالیت اور زیور اور دوکان کے سامان اور نقد مالیت کا حساب لگائیں، یہ جو بہت سی عورتیں سمجھتی ہیں کہ زیور استعمالی چیز ہے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں یہ خیال صحیح نہیں ہے، اس سلسلہ میں ابھی ایک حدیث بھی آرہی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ! چاندی سونے کی ہر چیز پر زکوٰۃ ہے۔ خواہ سونے چاندی کے برتن ہوں، خواہ گوٹے کی شکل میں ہو، خواہ زیور کی صورت میں، خواہ استعمالی ہو، خواہ یوں ہی رکھا ہو۔ 3بہ قدر نصاب شرعی مالیت کا مالک ہونے پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ بشرطے کہ ایک سال اس مال پر گزر جائے۔ 4سال کے اندر اگر مال گھٹ جائے اور سال ختم ہونے سے پہلے اتنا مال پھر آجائے کہ اگر اس کو باقی مال میں جوڑ دیں تو بہ قدر نصاب شرعی کے ہوجائے تو اس صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوجائے گی اور نئے مال کے آنے سے سال شروع نہ ہوگا بلکہ جب شروع میں مال آیا تھا اسی وقت سے سال کا حساب لگے گا۔ یہ