تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تشریح: اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد اور دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کے استعمال سے بے رغبتی کی ایک جھلک معلوم ہوتی ہے۔ آپ نہ صرف خود اپنے لیے بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی دنیاوی لذتوں اور نعمتوں میں پڑنا ناپسند فرماتے تھے۔ ناپسند تو سب ہی کے لیے تھا مگر اس سلسلہ میں زیادہ توجہ خود عمل پیر اہونے کی طرف تھی۔ حلال چیزیں استعمال کرنا چونکہ گناہ نہیں ہے، اس لیے سختی سے روکنامناسب نہ تھا، البتہ اپنے حق میں سختی فرماتے تھے اور گھر والوں کو تنبیہ فرماتے رہتے تھے۔ زیور اگرچہ عورت کے لیے حلال ہے مگر اسی کو پسند فرمایا کہ استعمال نہ کیا جائے، کیوں کہ دنیا میں نعمتوں کے استعمال سے خطرہ ہے کہ آخرت کی نعمتیں کم ملیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں آخرت کی نعمتوں کے سامنے بالکل ہیچ ہیں، اللہ کا پیارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیونکر پسند فرماتا کہ آخرت کی نعمتوں میں کمی آئے۔ اسی لیے چاندی کے کنگن ایک غریب گھرانے کے لیے بھیج دیئے۔ فصلی اللہ تعالیٰ علیہ واصحابہ والہ بقدر کمالہ وجمالہ مسئلہ: عورتوں کو چاندی سونے کا زیور پہننا جائز ہے، بشرطیکہ حلال مال سے ہو اور ریاکاری مقصود نہ ہو، جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے اور مردوں کو صرف چاندی کی انگوٹھی کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو، عورتوں اور مردوں کو اور کسی طرح سے سونے چاندی کا استعمال جائز نہیں ہے۔ مثلاً سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا، اور سونے چاندی کے چمچہ سے کھانا یا ان کی سلائی سے یا سرمہ دانی سے سرمہ لگانا یہ سب حرام ہے، مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی، جس پلنگ یا کرسی کے پائے سونے یا چاندی کے ہوں ان پر لیٹنا بیٹھنا بھی حرام ہے، اور اس میں مرد و عورت سب کا ایک حکم ہے۔بجنے والا زیور پہننے کی ممانعت (۲۳۱) وَعَنْ بُنَانَۃَ مَوْلاََۃِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ حَیَّانَ الْاَنْصَارِیِّ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَۃَ اِذْا دُخِلَتْ عَلَیْھَا بِجَارِیَۃٍ وَعَلَیْھَا جَلاََجِلُ یُصَوِّتْنَ فَقَالَتْ لاََ تُدْخِلَنَّھَا عَلَیَّ اِلَّا اَنْ تُقَطَّعُنَّ جَلاََجِلُھَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لاََ تَدْخُلُ الْمَلاََئِکَۃُ بَیْتًافِیْہِ جَرَس۔ (رواہ ابوداؤد) ’’حضرت بنانہؓ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ کے پاس حاضر تھی۔ اس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک عورت ایک لڑکی کو ہمراہ لیے حضرت عائشہؓ کے پاس اندر آنے لگی، وہ لڑکی جھانجن پہنے ہوئے تھی، جن سے آواز آرہی تھی، حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب تک اس کے جھانجن نہ کاٹے جائیں میرے پاس اسے ہرگز نہ لانا۔ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس گھر میں گھنٹی ہو اس میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘(مشکوٰۃ ص ۳۷۹ عن ابی داؤد) تشریح: ایک حدیث میں ہے: