تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کیا جائے : ۶۰۔ وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ ﷺ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُشَدَّ مِیْزَرَہٗ وَاَحْیٰی لَیْلَہٗ وَاَیْقَظَ اَھْلَہٗ۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت عائشہ ؓ روایت فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور اقدسﷺ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیا کرتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھروالوں کو (بھی عبادت کے لیے) جگاتے تھے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف ص ۱۸۲، از بخاری و مسلم) تشریح: ایک حدیث میں ہے کہ محبوب رب العالمینﷺ رمضان کے آخری دس دنوں کے اندر جتنی محنت سے عبادت کرتے تھے، اس کے علاوہ دوسرے ایام میں اتنی محنت نہ کرتے تھے۔ (مسلم عن عائشہ ؓ) حضرت عائشہ ؓ نے یہ جو فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ تہبند کس لیتے تھے، علما نے اس کے دو مطلب بتائے ہیں، ایک یہ کہ خوب محنت او رکوشش سے عبادت کرتے تھے اور راتوں رات جاگتے تھے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو کے محاورے میں محنت کا کام بتانے کے لیے بولا جاتا ہے کہ ’’خوب کمر کس لو۔‘‘ اور دوسرا مطلب تہبند کس کر باندھنے کا یہ بتایا کہ رات کو بیویوں کے پاس لیٹنے سے دور رہتے تھے۔ کیوں کہ ساری رات عبادت میں گزر جاتی تھی، اور اعتکاف بھی ہوتا تھا، اس لیے رمضان کے آخری عشرہ میں میاں بیوی والے خاص تعلق کا موقع نہیں لگتا تھا۔ حدیث کے آخرمیں جو اَیْقَظَ اَھْلَہٗ فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے اخیر عشرہ میں حضور اقدسﷺ خود بھی بہت محنت اور کوشش سے عبادت کرتے تھے، اور گھر والوں کو بھی اس مقصد کے لیے جگاتے تھے، بات یہ ہے کہ جسے آخرت کا خیال ہو، موت کے بعد کے حالات کا یقین ہو، اجر و ثواب کے لینے کا لالچ ہو وہ کیوں نہ محنت اور کوشش سے عبادت میں لگے گا، پھر جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے اہل و عیال کے لیے بھی پسند کرنا چاہیے۔ حضور اقدسﷺ عام راتوں میں نمازوں کے اندر اتنا قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک سوج جاتے تھے، پھر رمضان کے اندر خصوصاً اخیر عشرہ میں تو اور زیادہ عبادت بڑھادیتے تھے، کیوں کہ یہ مہینہ اور خاص کر اخیر عشرہ آخرت کی کمائی کا خاص موقع ہے، آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ گھر والے بھی عبادت میں لگے رہیں، لہٰذا اخیر عشرہ کی راتوں میں ان کو بھی جگاتے تھے، بہت سے لوگ خود تو بہت زیادہ عبادت کرتے ہیں لیکن بال بچوں کی طرف سے غافل رہتے ہیں، گھر کے لوگ فرض نماز بھی نہیں پڑھتے، اگر بال بچوں کو ہمیشہ دین پر ڈالنے اور عبادت میں لگانے کی کوشش کی جاتی رہے اور ان کو ہمیشہ فرائض کا پابند رکھا جائے تو رمضان میں نفلوں کے لیے اٹھانے اور شب قدر میں جگانے کی بھی ہمت ہو، جب بال بچوں کا ذہن دینی نہیں بنایا تو ان کے سامنے شب بیداری کی بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو اپنی محبت عطا فرمائے اور عبادت کی لگن اور ذکر کے ذوق