تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ سب تفصیل ہم نے یہ بتانے کے لیے لکھی ہے کہ خلع دونوں کے درمیان طے ہونے والا معاملہ ہے۔ کوئی ایک فریق خود سے فیصلہ نہیں کرسکتا۔دور حاضر کے حکام کا خلع اور فسخ نکاح کے بارے میں غیر شرعی طریق کار : آج کل کے حکام نے جو یہ طریقہ اختیار کررکھا ہے کہ جہاں عورت نے استغاثہ کیا، نکاح فسخ کرنے کا فیصلہ دے دیا اور اس کا نام خلع رکھ دیا۔ یہ سراسر غیر شرعی طریقہ ہے، بعض مرتبہ شوہر تک سمن پہنچتا ہی نہیں یا وہ حاضر عدالت ہوتا ہے اور بیوی کو بیوی کی طرح ادائیگی حقوق کے ساتھ رکھنا چاہتا ہے پھر بھی بعض حکام نکاح فسخ کردیتے ہیں اور عورت کی ناپسندیدگی ہی کو حق خلع استعمال کرنے کی دلیل بناکر جدائی کا فیصلہ کردیتے ہیں۔ یہ طریق کار یورپ کے قوانین سے تو جوڑ کھاتا ہے مگر شریعت کے بالکل خلاف ہے۔ یہ نہ تو شرعی خلع ہے (کیوں کہ فیصلہ مرد کی مرضی کے بغیر کردیا جاتا ہے) اور نہ اس طرح فسخ کردینے سے نکاح فسخ ہوتا ہے اور ایسے فیصلہ کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرنا درست نہیں ہوتا۔ بعض حالات میں حاکم مسلم کو نکاح فسخ کردینے کا حق ہے، مگر مخصوص اسباب اور مخصوص طریقہ کار کے بغیر فسخ کردینے سے نکاح فسخ نہیں ہوسکتا۔ جن اسباب کی وجہ سے نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے وہ یہ ہیں : (۱) شوہر کا پاگل ہونا۔ (۲) متعنت ہونا (جو نان نفقہ نہ دے۔) (۳)نامرد ہونا۔ (۴) مفقود الخیر (گم شدہ) ہونا، جس کی موت و حیات کا پتہ نہ ہو۔ (۵) غائب غیر مفقود ہونا جس کی زندگی کا علم تو ہو مگر پتہ نہیں کہ کہاں ہے۔ ان اسباب کی بنیاد پر مخصوص شرائط اور حدود و قیود کے ساتھ مسلم حاکم نکاح فسخ کرسکتا ہے جو کتاب ’’الحیانہ الناجزہ‘‘ میں لکھی ہیں۔ واضح رہے کہ کافر جج (قادیانی یا عیسائی وغیرہ) کے فسخ کرنے سے نکاح فسخ نہ ہوگا۔ اگرچہ اسباب و شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے فسخ کرے۔عدت طلاق اور عدت وفات کے مسائل : وَعَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ اَنَّ سُبِیْعَۃَ الْاَسْلَمِیَّۃَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ زَوْجِھَا بِلَیَالٍ فَجَائَ ِت النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاذَنْتَہُ اَنْ تَنْکِحَ فَاَذِنَ لَھَا فَنَکَحَتْ۔ (رواہ البخاری) ’’حضرت مسورؓ سے روایت ہے کہ صحابیہ سیعتہؓ کے بطن سے ان کے شوہر کی وفات کے چند دن کے بعد بچہ تولد ہوگیا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور (چونکہ تولد ہوجانے کی وجہ سے عدت ختم ہوچکی تھی) اس لیے