تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور بعض لوگوں کو نماز کے مسئلہ سے دھوکا ہوا ہے، عورت کا ستر نماز کے لیے اتنا ہے کہ چہرہ اور گٹوں تک دونوں ہاتھوں اور ٹخنوں تک دونوں قدموں کے علاوہ جسم ایسے کپڑے سے ڈھانکا ہوا ہے کہ بال اورکھال اچھی طرح چھپ جائے، نماز میں اگر چہرہ کھلا رہے تو نماز ہوجائے گا، فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ شرائط نماز کے بیان میں لکھا ہے، پردہ کے بیان میں نہیں لکھا۔ منہ کھول کر نماز ہوجانے کے جواز میں غیر محرم کے سامنے بے پردہ ہوکر آنے کا ثبوت دینا بڑی بددیانتی ہے۔ فقہاء پر اللہ کی ہزاروں رحمتیں ہیں، ان پاک طینت بزرگوں کے دل پہلے ہی کھٹک گئے تھے کہ فاسد الخیال لوگ مسائل نماز کی تصریحات سے نامحرموں کے سامنے بے پردہ ہوکر آنے پر استدلال کریں گے، درمختار میں جہاں شرائط نماز کے بیان میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ چہرہ اور کفین (ہتھیلیاں) اور قدمین (پائوں) ڈھانکنا صحت نماز کے لیے ضروری نہیں ہے وہیں یہ بھی درج ہے۔ وتمنع المراۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لا لانہ عورۃ بل لخوف الفتنہ۔۔۔۔۔الخ۔ (در مختار، شامی، صفحہ ۲۸۴، ج ۱) اور جوان عورت کو (نامحرم) مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے روکا جائے گا (اور یہ روکنا) اس وجہ سے نہیں کہ چہرہ (نماز کے) ستر میں داخل ہے بلکہ اس لیے کہ (نامحرم) کے سامنے چہرہ کھولنے میں، فتنہ کا خوف ہے۔شیخ ابن ہمامؒ زاد الفقیر میں شرائط نماز بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وفی الفتاوی الصحیح ان المعتبر فی فساد الصلوٰۃ انکشاف ما فوق الاذنین وفی حرمۃ النظر یسوی بینھما ای مافوق الاذنین وتحتھما۔ ’’فتاویٰ کی کتابوں میں ہے کہ مذہب صحیح یہ ہے کہ کانوں سے اوپر (یعنی بال اور سر) کے کھل جانے سے نماز فاسد ہوگی اور غیر مردوں کے لیے کانوں کے اوپر کا حصہ اور کانوں کے نیچے کا حصہ یعنی چہرہ وغیرہ کے دیکھنے کا ایک ہی حکم ہے، یعنی دونوں حصوں کو دیکھنا حرام ہے۔ ‘‘ بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اور اپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیں، اور پردہ کو بھی مانتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پردہ کے سخت احکام مولویوں نے ایجاد کیے ہیں، یہ لوگ ملحدین، بددین لوگوں کی باتوں سے متاثر ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں تھوڑا بہت اسلام سے تعلق باقی ہے ان کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے شیطان نے یہ نئی چال چلی ہے کہ ہر ایسے حکم کو جس کے ماننے سے نفس گریز کرتا ہو، مولوی کا تراشیدہ بتادیتا ہے، اور اس کی بات کو باورکرنے والے اس دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم نے تو اسلام کو جھٹلایا نہ قرآن کے ماننے سے پہلوتہی کی بلکہ مولوی کے غلط مسئلہ کا انکار کیا ہے، کاش یہ لوگ اپنی مومنانہ ذمہ داری کا احسا س کرتے اور علماء حق سے گھل مل کر ان کے ظاہر و باطن کا جائزہ لیتے، اور ان کے بیان کردہ مسائل کے دلائل معلوم کرکے اپنے نفوس کو مطمئن کرتے، علماء حق اپنی طرف سے کسی بھی حکم کو تجویز کرکے امت کے سر نہیں منڈھتے، اور نہ وہ ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ چونکہ