تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تشریح : ۷ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ خیبر کے لیے تشریف لے گئے۔ خیبر میں یہودی رہتے تھے (ان میں حضرت صفیہ کا باپ حی بن اخطب بھی تھا) اس جنگ میں حضرت صفیہؓ کا شوہر قتل ہوگیا تھا، جنگ کے ختم پر جب قیدی جمع کیے گئے تو ان میں حضرت صفیہؓ بھی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کرکے نکاح فرمالیا۔ حضرات صحابہؓ میں یہ بات بہت مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی تھی کہ حرہ یعنی آزاد عورت کو پردہ میں رہنا لازم ہے، اسی لیے انھوں نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پردہ میں رکھا تو ہم سمجھیں گے کہ آپ کی بیوی ہیں، ورنہ یہ سمجھیں گے کہ آپ نے ان کو لونڈی بنالیا ہے، پھر جب روانگی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان لیا تو سب نے سمجھ لیا کہ لونڈی نہیں بلکہ بیوی ہیں، اگر اس زمانہ میں پردہ کا رواج نہ ہوتا تو حضرات صحابہؓ کے دلوں میں یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اوپر کے مسئلہ میں لونڈی سے مراد شرعی لونڈی ہے، جو کافر عورتیں میدان جہاد سے قید ہوکر آتی تھیں اور امیر المومنین ان کو مجاہدین پر تقسیم کردیتا تھا وہ شرعی لونڈیاں بن جاتی تھیں، مسلمانوں نے جب سے شرعی جہاد چھوڑا ہے اس وقت سے غلام اور باندیاں بھی موجود نہیں رہیں، جو عورتیں ملازمت اور مزدوری پر گھروں میں کام کرتی ہیں یہ لونڈیاں یا باندیاں نہیں ہیں، ان کو پردہ کا ویسا ہی اہتمام کرنا لازم ہے جو ہر آزاد عورت کے لیے ضروری ہے، اسی طرح جو لڑکے امیر گھرانوں میں ملازم ہوتے ہیں، جب بالغ ہوجائیں یا بلوغ کے قریب پہنچ جائے تو ان سے پردہ کرنا لازم ہے۔ کیسی بے شرمی کی بات ہے کہ نوکروں کے سامنے بہو بیٹیاں آتی ہیں اور ذرا بھی گناہ اور عیب نہیں سمجھتیں۔سفرمیں شادی اور ولیمہ : حدیث بالا میں جو واقعہ مذکورہے ہم لوگوں کے لیے ایک اور اعتبار سے بھی قابل عبرت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر ہی میں نکاح فرمالیا اور سفر ہی میں شب زفاف ہوگئی اور ولیمہ بھی وہیں ہوگیا، لوگوں نے شادی بیاہ کے لیے بڑے بکھیڑے تجویز کر رکھے ہیں، ان بکھیڑوں کی وجہ سے شادیوں میں دیر ہوجاتی ہے، اور بھاری قرضوں سے زیر بار ہوجاتے ہیں، دنیا بھر کے عزیز و قریب جمع ہوں، جو سفر کے اخراجات کرکے آئیں، اور عورتوں کی تراشی ہوئی رسموں کی پابندی ہو، مکان لیپ پوت کر مزین کیے جائیں، دولہا دلہن کے لیے بہت جوڑے بنیں، زیورات تیار ہوں، اور اسی طرح کی بہت سی قیدیں اور شرطیں پیچھے لگا رکھی ہیں جو خاندانوں کے لیے عذاب بنی ہوئی ہیں، ان رسوم کو بہت سے لوگ مصیبت سمجھتے تو ہیں مگر عورتوں کے پھندے میں اور رواج کے شکنجہ میں اپنے کو ایسا پھنسا رکھا ہے کہ سنت کے موافق سادہ طریقہ پر بیاہ و شادی کرنے کو عیب جانتے