تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تقویٰ کے علاوہ اور بھی بے شمارنعمتیں ہیں جن کا درجہ گو تقویٰ کی نعمت سے کم ہے مگر انسان کی زندگی کے لیے وہ بھی بہت ضروری اور انمول ہیں، ان نعمتوں میں سب سے بڑھ کر کیا ہے؟ سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ تقویٰ کے بعد سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے، پھر نیک بیوی کی صفات بتائیں۔نیک عورت کی صفات : اول: یہ کہ شوہر کی فرماں بردار ہو، شوہر جو فرمائش کرے اسے پوری کرے اور نافرمانی کرکے اس کا دل نہ دکھائے، بشرطیکہ شوہر نے خلاف شرع کسی کام کا حکم نہ کیا ہو، خلاف شرع کاموں میں کسی کی بھی فرماں برداری نہیں کیوں کہ اس سے خالق و مالک جل مجدہ کی نافرمانی ہوتی ہے جو احکم الحاکمین ہے۔ دوم: یہ فرمایا کہ اگر شوہر اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کرے۔ یعنی اپنا رنگ ڈھنگ شوہر کی مرضی کے مطابق رکھے۔ جب بیوی پر نظر پڑے تو اسے دیکھ کر اس کا دل خوش ہو۔ بعض عورتیں اینٹھتی رہتی ہیں۔ بات بات میں منہ پھلانا اور مرض ظاہر کرنے کے لیے خواہ مخواہ کراہنا اپنی عادت بنالیتی ہیں اور بعض عورتیں میلی کچیلی پھوہڑ بنی رہتی ہیں۔ ان باتوں سے شوہر کو قلبی اذیت ہوتی ہے۔ شوہر صورت دیکھنے کا روادار بھی نہیں بلکہ گھر میں جانے کو بھی اپنے لیے مصیبت سمجھتا ہے۔ ان میں بعض عورتیں وہ بھی ہوتی ہیں جو نماز روزہ کی پابند ہونے کی وجہ سے اپنے کو دین دار اور نیک سمجھتی ہیں، حالاں کہ نیک عورت کے اوصاف میں یہ بات بھی شامل کردی گئی ہے کہ شوہر کی فرماں برداری کرے اور اس حال میں رہے کہ شوہر اس پر نظر ڈالے تو بے چارہ خوش ہوسکے، البتہ خلاف شرع خواہش پوری نہ کرے۔ سوم: یہ فرمایا کہ اگر شوہر کسی ایسی بات پر قسم کھالے جس کا انجام دینا بیوی سے متعلق ہو، مثلاً یہ کہ آج تم ضرور میری والدہ کے پاس چلوگی، یا فلاں بچے کو نہلاؤ دھلاؤگی، یا مثلاً تہجد پڑھوگی تو اس کی بیوی قسم میں اس کو سچا کرکے دکھائے۔ یعنی وہ عمل کرلے جس پر شوہر نے قسم کھالی ہے۔ بشرطیکہ وہ عمل شرعاً درست ہو، یہ قسم کھالینا کہ تم ضرور یہ کام کروگی بہت زیادہ محبت اور الفت اور ناز کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے تعلق خاص ہے اور جس پر ناز ہے اسی سے کہا جاتا ہے کہ ایسا کرو اور ایسے مواقع پر کبھی اسے قسم دے دیتے ہیں اور کبھی خود قسم کھالیتے ہیں۔ جن عورتوں کو شوہروں سے اصلی اور قلبی تعلق ہوتا ہے وہ شوہر کو راضی رکھنے کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ اس تیسری صفت میں (جو صالح عورت کی تعریف میں ذکر کی گئی ہے) اسی خاص الفت اور چاؤ کا ذکر فرمایا ہے جو شوہر و بیوی کے درمیان ہونا چاہیے۔ چہارم: یہ فرمایا کہ اگر شوہر کہیں چلا جائے اور بیوی کو گھر چھوڑ جائے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے تو بیوی کا فریضہ ہے کہ اپنی جان اور شوہر کے مال کے بارے میں