تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعالیٰ تمہیں عافیت دے دے، یہ سن کر انھوں نے کہا کہ میں صبر کرتی ہوں، آپ یہ دعا فرمادیں کہ دورے کے وقت میرے کپڑے نہ کھلا کریں۔ آپ نے اس کے لیے اس امر کی دعا فرمادی۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف ص ۱۳۷، ازبخاری و مسلم) تشریح: اس حدیث میں بھی یہی بات سمجھائی ہے کہ امراض اور تکلیف مومن بندوں کے لیے نعمت ہے، جو شخص مرد ہو یا عورت تکلیف پرصبر کرلے اور مرض کی بے چینی کو سہہ لے اس کے لیے بڑے درجات ہیں۔ صحابی مرد اور عورتیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر پختہ یقین رکھتے تھے اور جنت مل جانے کو بڑی دولت سمجھتے تھے، اسی وجہ سے تو اس سیاہ فام عورت نے جس کا حدیث شریف میں ذکر ہواجنت کی خوشخبری کا یقین رکھتے ہوئے صبر ہی کو اختیار کیا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عافیت کی دعا نہ کرانے کو ترجیح دی، البتہ اس دعا کی خواہش کی کہ دورہ کے وقت جسم نہ کھلا کرے۔ اس زمانہ کے لوگ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں، اس لیے کوئی تکلیف آتی ہے تو بے صبری سے چیخ اٹھتے ہیں اور مرض پر صبر کرکے اجر و ثواب لینے پر ذرا بھی ذہن نہیں لے جاتے۔ حضرت یحییٰ بن سعیدؒ (تابعی) کا بیان ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک شخص کی وفات ہوگئی۔ ایک صاحب نے کہا کہ اس مرنے والے کے لیے مبارک ہو کہ مرض میں مبتلا ہوئے بغیر وفات پاگیا، یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیسی افسوسناک بات کہہ رہے ہو۔ تمہیں پتہ نہیں اگر اللہ تعالیٰ اس کو مرض میں مبتلا فرماتے تو اس کے گناہوں کا کفارہ فرمادیتے۔ (اخرجہ مالک فی الموطا مرسلا) ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کن لوگوں کو زیادہ تکلیف میں ڈالا جاتا ہے، آپ نے فرمایا۔ سب سے زیادہ تکلیف میں حضرات انبیاء علیہم السلام مبتلا ہوتے ہیں، پھر ان کے بعد جس قدر کوئی افضلیت کا حامل ہوتا ہے اسی قدر تکلیفوں میں مبتلا ہوتے ہیں، (پھر فرمایا، انسان اپنی دینی حیثیت کے مطابق مبتلا کیا جاتا ہے، اگر دین میں سخت ہے تو اس کی تکلیف اور سخت ہوجاتی ہے اور اگر اپنے دین میں نرم یعنی ضعیف اور کمزور ہے تو اس کے لیے خدائے پاک کی طرف سے آسانی کردی جاتی ہے) برابر اسی طرح تکلیفیں رہتی ہیں، یہاں تک کہ یہ (دین سے وابستگی رکھنے والا) شخص زمین پر اس حال میں چلتا پھرتا ہے کہ اس پر تکلیفوں کی وجہ سے کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں موت سے پہلے دے دیتے ہیں اور جب کسی کو عذاب میں مبتلا کرنا مقصود ہوتا ہے تو دنیا میں اس کے گناہوں کی پاداش میں سزا نہیں دیتے اور سزا کوروک لیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن پوری سزا دیں۔ (ترمذی)