تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور ہانڈی بھی موجود ہے۔ حضرت ام سلمہؓ نے خود جوپیسے، اور چکنائی ڈال کر مالیدہ بنایا اور پہلے ہی دن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے تیار کیا ہوا مالیدہ کھلایا۔ (یہ حالات ہم نے اپنی کتاب ’’امت مسلمہ کی مائیں‘‘ سے اقتباس کرکے لکھے ہیں۔ حوالہ جات اس میں ملاحظہ فرمائیں۔) جب حضرت ام سلمہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدہ پر آئیں تو اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ آگئیں، جیسا کہ پہلے شوہر کی چھوٹی اولاد اپنی والدہ کے ساتھ آجایا کرتی ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی طرح ا ن کے بچوں کی بھی پرورش فرمائی اور ا نکی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا۔ اوپر جو حدیث نقل کی گئی ہے اس میں حضرت ام سلمہؓ کے بیٹے عمران بن ابوسلمہؓ اپنا ایک واقعہ اسی زمانہ کا نقل فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پاتا تھا، ایک دن جو آپ کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تو میرا ہاتھ پیالہ میں ہرطرف گشت کرنے لگا، کبھی ادھر ڈالا، کبھی ادھر ڈالا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تین نصیحتیں فرمائیں: اول: بِسْمِ اللّٰہِ یعنی اللہ کا نام لے کر شروع کر۔ دوم: کُلْ بِیَمِیْـنِکَ یعنی اپنے داہنے ہاتھ سے کھا۔ سوم: کُلْ مِمَّا یَلِیْکَ جو حصہ تجھ سے قریب ہے اس میں کھا۔ یعنی پیالہ میں ہر جگہ ہاتھ مت ڈال، اپنی جگہ جو پیالہ کا حصہ ہے اسی جانب ہاتھ ڈال کر کھا، دوسری روایات میں ہے کہ اگر پلیٹ میں ایک ہی طرح کی چیز نہ ہو بلکہ کئی چیزیں ہوں (جیسے بادام، اخروٹ، منقی، کھجوریں وغیرہ)کئی چیزیں بھری ہوئی ہوں تو اس میں اپنے قریب ہاتھ ڈالنا آداب میں سے نہیں ہے، بلکہ ہاتھ بڑھا کر جہاں سے جو چیز اٹھانا چاہے اٹھا سکتاہے۔ اس حدیث میں کھانے کے چند آداب بتائے ہیں، اسلام سراسر احکام اور اعمال اور آداب کا نام ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم معلم الایمان، معلم العبادات، معلم الاحکام، معلم الاخلاق اور معلم الاداب تھے، آپ نے سب کچھ بتایا اور کرکے دکھایا، تاکہ امت کی تعلیم قول سے بھی ہو اور عملی طور پر بھی، آپ کی ساری زندگی سراپا تعلیم و تربیت ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح زندگی گزاری جائے؟ اور اجتماعی اور انفرادی حیثیت سے اپنے معاشرہ کو کن اخلاق و آداب سے مزین کریں ؟ اس کا جواب حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہے، آج کل نماز روزے کو تو کچھ لوگ اہمیت دیتے بھی ہیں، لیکن اخلاق و آداب کو کچھ بھی اہمیت نہیں دیتے، حالاں کہ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب و اخلا ق بھی بڑی اہمیت کے ساتھ بتائے ہیں جو سراسر فطرت انسانی کے موافق ہیں، جو لوگ اپنی معاشرت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریق استعمال نہیں کرتے اور کھانے پینے اور رہنے سہنے اور سونے جاگنے اور پہننے اوڑھنے میں ارشادات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ نہیں رکھتے ان کی زندگی انسانیت سے بعید اور حیوانیت سے قریب تر ہوتی ہے جس کا مشاہدہ عموماً ہوتا رہتا ہے۔