تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دور حاضر کے لوگوں نے کھانے پینے او رپہننے اور زندگی گزارنے کے دوسرے طریقوں میں یورپ اور امریکہ کے کافروں کو اپنا امام و پیشوا بنا رکھاہے، ان خدافراموش انسانوں کا جو بھی طریقہ سامنے آتا ہے اسے لپک کر قبول کرلیتے ہیں اور بڑی جانثاری کے ساتھ ان پر عمل پیراہوتے ہیں، تعجب ہے کہ ایمان تو لائیں سرور دو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عمل کریں ملحدوں اور نصرانیوں کے طریقوں پر، بہت سے لوگوں کو اس میں اس قدر غلو ہے کہ حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز زندگی کو اپنانے میں عیب سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کریں تو لوگ نام دھریں گے، انگلیاں اٹھائیں گے کہ فلاں آدمی بڑا دقیانوسی ہے۔ ماڈرن نہیں ہے۔ اللہ اکبر! کیسی ناسمجھی کے خیالات ہیں۔ اگرسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی وجہ سے کسی منکر اسلام نے کچھ کہہ ہی دیا تو اس سے کیا ہوتاہے۔ جس پر ہم ایمان لائے ہیں ہم اسی سے وابستہ ہیں، وہی ہمارا آقا ہے، ہم کو اسی کا طرز ندگی پسند ہے، اس کی وضع قطع، لباس وغیرہ او رپورا طرز زندگی ہمارایونیفارم ہے۔ ہم اس کے ہیں، وہ ہماراہے، اپنے آقا کے اتباع کرنے میں خفت محسوس کرنا احساس کمتری ہے اور سراسر بے وقوفی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o ’’آپ فرمادیجیے کہ اگراللہ سے محبت رکھتے ہوتو میرا اتباع کرو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ غفور رحیم ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بتایا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر زندگی گزارنے سے بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ ہمیں اللہ کی بارگاہ میں محبوب او رمقبول ہونا چاہیے، ہماری سعادت اسی میں ہے کہ اپنے آقا کی پیروی کریں، اور اپنی غلامی کا عمل سے ثبوت دیں، اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کے نزول اور اللہ تعالیٰ کے رسول رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال ہور ہے ہیں۔ ہمارا دین و ایمان قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہے۔ وہ پرانے ہیں، ہم بھی پرانے ہیں، اس میں عیب کی کیا بات ہے؟ آخر دوسری قومیں بھی تو طور طریق اور وضع قطع، سج دھج میں اپنے بڑوں کا اتباع کرتی ہیں، اس میں یہ لوگ کوئی بے آبروئی محسوس نہیں کرتے اور فخر کرتے ہوئے اپنے دین کے شعار کو اختیار کرتے ہیں، اور اپنے بڑوں کی مردہ چیزوں کو زندہ کررہے ہیں، حالاں کہ جن کویہ لوگ مانتے ہیں وہ اس دنیا میں آنے کے اعتبار سے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مقدم ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ وہ تو دقیانوسی نہ ہوئے اور ہم دقیانوسی ہوگئے؟ ذرا غور تو کرو، آخر کیا مصیبت ہے کہ ہم پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے طرززندگی کے بجائے دشمنوں کے طور طریقے سیکھتے ہیں اور ا ن پر عمل کرتے ہیں۔ آخرت میں عزت و عظمت اور سرخروئی نصیب ہونے کی فکر کرنے والے یہی کوشش کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شمار کرلیے