تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۰۔ یہ صورت بھی حد سے بڑھ جانے کی ہے کہ کسی چیز کے متعلق یہ طے کرلیا جائے کہ اس کا حساب نہ ہوگا، جبکہ حدیث میں اس کا ثبوت نہ ہو، جیسے مشہور ہے کہ رمضان شریف کے آخری جمعہ کو نیا کپڑا یا نیا جوتا پہن لیا جائے تو وہ بے حساب ہوجاتا ہے، اسی لیے بعض لوگ بہت سے جوڑے اس روز پہن لیتے ہیں۔ یہ سب غلط اور لغو ہے۔ (تلک عشرۃ کاملۃ) یہ چند صورتیں حد سے آگے بڑھ جانے کی احقر نے لکھ دی ہیں، غور کرنے سے اور نکل سکتی ہیں، اللہ کی حدود سے آگے بڑھنا زبردست جرم ہے، قرآن مجید میں جگہ جگہ اس سے منع فرمایا گیا ہے، چناں چہ ارشاد ہے: {تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْہَاط}1 (1 البقرۃ: ۱۸۷) یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے نکلنے کے نزدیک بھی مت جاؤ۔ اورفرمایا: {تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْہَاط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo}1 (1 البقرۃ: ۲۲۹ ) یہ اللہ کی حدود ہیں سو ان سے آگے مت نکلنا، اور جو اللہ کی حدود سے باہر نکل جائے سو ایسے ہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں۔ اورفرمایا: {وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَاص وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیْنٌo}1 (1 النساء: ۱۴) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری نہ کرے اور اس کی حدود سے آگے بڑھ جائے، اللہ اس کو آگ میں داخل فرمائے گا۔ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلیل کرنے والی سزا ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ وَسَکَتَ عَنْ أَشْیَائَ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ فَلَا تَبْحَثُوْا عَنْھَا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی ہے جو بھولنے کی وجہ سے نہیں ہے سو ان کو مت کریدو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حلال بتائی ہیں ان کو حلال سمجھو، اور جن چیزوں کو حرام کیا ہے ان کو عقیدہ اور عمل سے حرام سمجھو، حرام و حلال کے قواعد بھی بتادیئے ہیں، بوقت ضرورت ان قواعد سے کام لو، اور جن چیزوں کے متعلق کوئی حکم صادر نہیں فرمایا تم خواہ مخواہ ان کی کرید میں مت پڑو، زمانہ نبوت میں بعض مرتبہ سوال کرنے پر احکام نازل ہوجاتے تھے، لہٰذا حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں کے بیان سے خاموشی ہے ان کو مت کریدو، اللہ نے جس چیز کی ممانعت نہیں فرمائی اس کے متعلق یہ نہ سمجھو کہ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو سہو ہوگیا ہے، جو اس کا حکم نازل نہیں فرمایا بلکہ اس نے تم پر رحم فرمایا کہ اس چیز سے نہیں روکا، اس کے کرنے پر تمہاری پکڑ نہ ہوگی، جب اللہ منع فرمانا چاہیں گے ممانعت نازل ہوجائے گی، تم خود سوال کرکے ممانعت نازل ہونے کا باعث کیوں بنتے ہو؟ ممکن ہے کہ سوال کرنے پر ایسا حکم نازل