تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوجائے جس کے کرنے سے جان چراؤ، اس وقت مجرم بنو گے، قرآن مجید میں ارشاد ہے: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْج وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْط عَفَا اللّٰہُ عَنْہَاط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌo قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا کٰفِرِیْنَo}1 (1 المائدہ: ۱۰۱، ۱۰۲) اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پہ ظاہر کردی جائیں تو تمہاری ناگواری کا سبب ہواور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو تو تم سے ظاہر کردی جائیں، سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کردیئے، اور اللہ بڑی مغفرت والے، بڑے حلم والے ہیں، ایسی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے بھی پوچھی تھیں پھر وہ ان باتوں کا حق نہ بجالائے۔ حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد کوئی نیا حکم نازل ہونے کا احتمال ختم ہوگیا۔ جس دین پر آپ نے چھوڑا ہے اس سب پر اتباع لازم ہے۔۔۔۔۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ (حجتہ الوداع کے موقع پر)رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج کرو، ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ کیا حج ہر سال فرض ہے؟ اس کے جواب میں آں حضرت ﷺ نے کچھ نہ فرمایا، حتیٰ کہ سائل نے تین مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال ہی واجب ہوجاتا اور تم اس پر عمل نہ کرسکتے، اس کے بعد فرمایا: ذَرُوْنِيْ مَا تَرَکْتُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرِۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَآئِھِمْ فَإِذَا أَمرْتُکُمْ بِشَيْئٍ فَاتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَيْئٍ فَدَعُوْہُ۔ (رواہ مسلم) میں جب تک (بغیر بتائے تم کوچھوڑے رکھوں) تم مجھے چھوڑے رکھو (یعنی سوال مت کرو) کیوں کہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے کہ سوال بہت کرتے تھے اور اپنے پیغمبروں کے خلاف چلتے تھے، لہٰذا میں تم کو جب کسی چیز کا حکم دوں جہاں تک ہوسکے اسے کرو اور جس سے روکوں اس سے رک جاؤ۔ حضور اقدس ﷺ پورا دین کامل ہم کو دے کر دنیا سے تشریف لے گئے ہیں، حلال اور حرام اور جائز و ناجائز خوب واضح کرکے بتادیا ہے اور جن چیزوں کے متعلق صریح حکم موجود نہیں ہے قواعد سے ان کی حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا پتہ چل جاتا ہے، جو قرآن و حدیث میں بیان کردیئے گئے ہیں، لہٰذا جن چیزوں کا حکم صریح قرآن و حدیث سے نہ ملے اور قرآن و حدیث کے قواعد کے ماتحت ان کی حرمت اور عدم جواز کا فتویٰ نہ ملے ان کو جائز سمجھا جائے گا، مثلاً ہم بہت سی ترکاریاں کھاتے ہیں، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے اور قواعد شرعیہ سے ان کی حرمت بھی ثابت نہیں اس لیے ان کا کھانا جائز ہے، اسی طرح ریل، ہوائی جہاز، بس کی سواری اور ان دواؤں کا حکم جن کی ممانعت خصوصی یا قواعد کی روسے نہیں نکلتی ان کا استعمال درست ہے۔