تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ ۷۔ کسی ثواب کے کام کو کسی خاص جگہ کے ساتھ مخصوص کرلینا (جس کی تخصیص شریعت سے ثابت نہ ہو) یہ بھی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ جیسے بعض جگہ دستور ہے کہ قبر پر غلہ یا روٹی تقسیم کرتے ہیں، ثواب ہر جگہ سے پہنچ جاتا ہے، پھر اس میں اپنی طرف سے قبر پر ہونے کو طے کرلینا اور یہ سمجھنا کہ یہاں تقسیم کرنے سے زیادہ ثواب ملے گا، حدود اللہ سے آگے بڑھ جانا ہے۔ ۸۔ ایک صورت حد سے آگے بڑھ جانے کی یہ ہے کہ بعض کھانے کی چیزوں کے متعلق اپنی طرف سے یہ تجویز کرلیا جائے کہ اسے فلاں شخص کھاسکتا ہے اور فلاں نہیں کھاسکتا۔ جیسے مشرکین مکہ کیا کرتے تھے، قرآن مجید میں ان لوگوں کے متعلق فرمایا گیا ہے: {وَقَالُوْا ہٰذِہٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌق لَّا یَطْعَمُہَآ اِلَّا مَنْ نَّشَآئُ بِزَعْمِہِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُہُوْرُہَا وَاَنْعَامٌ لَّا یَذْکُرُوْنَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا افْتِرَآئً عَلَیْہِط سَیَجْزِیْہِمْ بِمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَo وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ہٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓی اَزْوَاجِنَاج وَاِنْ یَّکُنْ مَّیْتَۃً فَہُمْ فِیْہِ شُرَکَآئُط سَیَجْزِیْہِمْ وَصْفَہُمْط اِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌo}1 (1 الأنعام: ۱۳۸، ۱۳۹) اور وہ اپنے خیال (باطل) سے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ (مخصوص) مویشی اور (مخصوص) کھیت ہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا، سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں اور (یہ بھی اپنے خیال باطل سے کہتے ہیں کہ)یہ (مخصوص) مواشی ہیں جن پر سواری یا باربرداری حرام کردی گئی ہے اور (مخصوص) مواشی ہیں جن پر یہ لوگ اللہ کا نام نہیں لیتے۔ محض اللہ پر افتراء کرنے کے طور پر اللہ ان کو عنقریب افتراء کی سزا دے گا اور وہ (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو چیز ان مواشی کے پیٹ میں ہے خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے، اور اگر وہ مردہ ہے تو اس میں وہ سب (مرد و عورت) ساجھی ہیں، اللہ ان کو عنقریب غلط بیانی کی سزا دے دے گا، بلاشبہ وہ حکمت والا ہے اور علم والا ہے۔ اسی قسم کی شکلیں آج کل فاتحہ و نیاز والے لوگوں نے بنارکھی ہیں۔ مثلاً حضرت فاطمہ زہراؓ کے ایصال ثواب کے لیے بی بی جی کی صحنک کے نام سے کچھ رسم کی جاتی ہے۔ اس رسم میں جو کھانا پکتا ہے اس میں یہ قاعدہ بنا رکھا ہے کہ اس کھانے کو مرد اور لڑکے نہیں کھاسکتے، صرف لڑکیاں کھائیں گی، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرض کر رکھا ہے کہ اس کھانے کے لیے کورے برتن ہوں، جگہ لیپی ہوئی ہو، یہ سب خرافات اپنی ایجادات ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: {قُلْ اَرَئَیْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰـلًاط قُلْ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَo}1 (1 یونس:۵۹) آپ ان سے کہہ دیجیے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اللہ نے تمہارے لیے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے (اپنی من گھڑت سے) اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حصہ حلال قرار دے لیا، آپ ان سے پوچھئے کہ کیا تم کو خدا نے حکم دیا ہے یا محض اللہ پر ہی افتراء کرتے ہو۔ ۹۔ ایک صورت حد سے بڑھ جانے کی یہ ہے کہ اپنی طرف سے کسی گناہ کا مخصوص عذاب تجویز کرلیا جائے جو کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ میں مذکور نہ ہو، جیسا کہ بہت سے واعظ بیان کرتے پھرتے ہیں۔