تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرح یہ بھی نہیں کیا کہ رشتہ ازدواج ہر حال میں ناقابل فسخ ہی رہے بلکہ طلاق اور فسخ نکاح کا قانون بنایا۔ طلاق کا اختیار تو صرف مرد کو دیا گیا ہے جس میں عادتاً فکر و تدبر اور تحمل کا مادہ عورت سے زائد ہوتا ہے۔ عورت کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں دیا، تاکہ وقتی تاثرات سے مغلوب ہوکر (جو عورت میں بہ نسبت مرد کے زیادہ ہے) طلاق نہ دے ڈالے۔ لیکن عورت کو بھی بالکل اس حق سے محروم نہیں رکھا گیا کہ وہ شوہر کے ظلم و ستم سہنے پر مجبور ہی ہو بلکہ اس کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر اپنے شوہر کو کسی وجہ سے اتنا ناپسند کرتی ہو کہ اس کے ساتھ کسی قیمت پرنباہ کرنا ممکن ہی نہ رہا ہو تو اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ شوہر کو سمجھا بجھا کر طلاق دینے پر آمادہ کرلے۔ ایسی صورت میں شوہر کو بھی چاہیے کہ جب وہ نکاح کے رشتہ کو خوشگواری کے ساتھ نبھتا نہ دیکھے اور یہ محسوس کرلے کہ اب یہ رشتہ دونوں کے لیے ناقابل برداشت بوجھ کے سوا کچھ نہیں رہا تو وہ شرافت کے ساتھ اپنی بیوی کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دے تاکہ عدت گزارنے کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کرسکے۔ لیکن اگر شوہر اس بات پر راضی نہ ہو تو عورت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مالی معاوضہ پیش کرکے اس سے طلاق حاصل کرلے۔ عموماً اس غرض کے لیے عورت مہر معاف کردیتی ہے اور شوہر اسے قبول کرکے عورت کو آزاد کردیتا ہے، اس کے لیے اسلامی شریعت میں جو خاص طریق کار مقرر ہے اسے فقہ کی اصطلاح میں خلع کہا جاتا ہے۔ نکاح اور دوسرے شرعی معاملات کی طرح خلع بھی ایجاب و قبول کے ذریعے انجام پاتا ہے، لیکن اگر زیادتی مرد کی طرف سے ہو تو فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ شوہر کے لیے معاوضہ لینا جائز نہیں۔ اسے چاہیے کہ معاوضہ کے بغیر عورت کو طلاق دے دے۔ ایسی صورت میں اگر مرد معاوضہ لے گا تو مرتکب گناہ ہوگا۔ حضرت ثابت بن قیسؓ کی بیوی کا جو واقعہ حضرت ابن عباسؓ نے بیان فرمایا کہ اس میں یہی بات ہے کہ شوہر بیوی سے خوش تھا اور بیوی بھی اس کی خوش خلقی اور دینداری کا اقرار کررہی تھی لیکن شوہر سے اس کا دل نہیں لگتا تھا اور اس سے طبیعت مانوس نہ ہوتی تھی جس کی وجہ سے چھٹکارا چاہتی تھی، چونکہ مذکورہ واقعہ میں شوہر کا کوئی قصور نہ تھا اس لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو باغ واپس دینے کی ہدایت فرمائی، اس صورت میں طلاق کے عوض شوہر کو وہ باغ بلا کراہت واپس لے لینا درست ہوگیا، اگر کوئی عورت مال کے بدلے طلاق مانگے تو شوہر پر واجب نہیں ہے کہ اس بات کو قبول کرلے، اسی لیے حدیث کی شرح لکھنے والے علماء نے بتایا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ طلاق دے دو درجہ وجوب میں نہ تھا بلکہ یہ امر استحبابی تھا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو باغ قبول کرکے ایک طلاق دینے کا فرمایا، مال کے بدلہ جو طلاق دی جائے وہ بائن ہوتی ہے، اگرچہ ایک یا دو طلاق ہوا ور صریح لفظوں میں ہو، بائن طلاق کے بعد اگر پھر آپس