تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الْکُفْرَ فِی الْاِسْلاََمِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَرُدَیْنَ عَلَیْہِ حَدِیْقَتَہٗ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِقْبَلِ الْحَدِیْقَہَ وَطَلِّقْھَا تَطْلِیْقَۃً۔ (رواہ البخاری) ’’حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیسؓ کی بیوی (جمیلہ یا جنیبہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ، ثابت بن قیس جو میرے شوہر ہیں مجھے ان کی عادت و خصلت و دینداری کے بارے میں کوئی ناراضگی نہیں ہے (کیوں کہ وہ دیندار بھی ہیں اور اخلاق کے بھی اچھے ہیں۔ ان سب کے باوجود میری طبیعت کا ان سے جوڑ نہیں کھاتا اور ان کے ساتھ رہنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس صورت میں اگر میں ان کے ساتھ رہوں تو ان کے حقوق ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک اچھے آدمی کے ساتھ رہوں اور وہ اخراجات برداشت کرے اور اس کے حقوق کی ادائیگی نہ ہو یہ ناشکری کی بات ہے) لیکن میں مسلمان ہوتے ہوئے ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں (لہٰذا میری اور ان کی جدائی ہوجائے تو بہتر ہے) یہ سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا (طلاق کے بدلہ) تم اس کا باغیچہ واپس کردوگی۔ (جو اس نے مہر میں دیا ہے) اس کے جواب میں انھوں نے کہا، ہاں میں واپس کردوں گی۔ آپ نے یہ سن کر حضرت ثابت بن قیسؓ سے فرمایا کہ تم باغیچہ قبول کرلو (اور اس کے عوض) اس کو ایک طلاق دے دو۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۲۸۳ بحوالہ بخاری) تشریح: اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کے لیے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے کیوں کہ جدائی کا اثر فریقین پر نہیں پڑتا بلکہ اس کی وجہ سے نسل و اولاد کی تباہی و بربادی ہوتی ہے اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اسی لیے جو اسباب اور وجوہ اس معاملہ کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں اسلامی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کا پورا انتظام کیا ہے۔ شوہر اور بیوی کو جو ہدایتیں قرآن و سنت میں دی گئی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ رشتہ ازدواج ہمیشہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے اور ٹوٹنے نہ پائے۔ ناموافقت کی صورت میں اول افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہہ کی ہدایتیں دی گئیں اور اگر بات بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو دونوں خاندانوں کے افراد کو حکم اور ثالث بناکر معاملہ طے کرنے کی تعلیم دی۔ آیت سورہ نساء فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِنْ اَھْلِھَا میں خاندانوں کے افراد کو ثالث بنانے کا حکم دیا گیا ہے جو بہت حکیمانہ ہے کیوں کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جائے گی اور دلوں میں زیادہ بعد پیدا ہوجانے کا خطرہ ہوجائے گا۔ لیکن بعض اوقات ایسی صورتیں بھی پیش آتی ہیں کہ اصلاح حال کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں اور نکاح سے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے فریقین کا آپس میں رہنا عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں تعلق ختم کردینا ہی طرفین کے لیے راحت اور سلامتی کا باعث ہوجاتا ہے۔ اس لیے شریعت اسلام نے بعض دوسرے مذاہب کی