تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ فرمائی کہ اپنے بیوی بچوں پر اپنے اچھے اور عمدہ مال سے خرچ کرو، اس میں خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کو نصیحت ہے جو اہل و عیال کے ضروری اخراجات میں تنگی برتتے ہیں۔ حرام مال تو حاصل کرنا ہی حرام ہے۔ لہٰذا اس کو اہل و عیال پر خرچ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جسے اللہ پاک حلال مال نصیب فرمائے اس کو بیوی بچوں میں اچھی طرح خرچ کرے۔ البتہ فضول خرچی سے پرہیز کرے اور گناہوں میں خرچ نہ کرے، بہت سے لوگ بچوں کی خوش نودی کے لیے گڑیاں اور تصویریں خرید لاتے ہیں اور بعض لوگ سب بیوی بچوں کو لے جاکر سینما دکھاتے ہیں، یہ سب گناہ ہے، بس اللہ کی ہی رضا پیش نظر رہنی چاہیے، اس کی رضا مندی کی فکر میں رہتے ہوئے جو راضی ہوجائے بہتر ہے اور جو ناراض ہوجائے ہمارے ذمہ اس کا راضی کرنا نہیں، ہمارے ذمہ صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے جو خالق و مالک ہے، اسی کے فرمان کے مطابق سے اسی کے قانون کے مطابق بیوی بچوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ ۹۔ نویں نصیحت: یہ فرمائی کہ اپنے گھر والوں کو ادب سکھانے میں کوتاہی نہ کرو اور لاٹھی اٹھا کر مت رکھ دینا جس کی وجہ سے وہ مطمئن ہوکر احکام خداوندی کو فراموش کر دیں، مقصد یہ ہے کہ اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر لگانے کی ہر وقت فکر رکھو۔ دین کے معاملہ میں ان کا خیال رکھنا ان کو گوارا ہو یا ناگوار، نمازیں پابندی سے پڑھواؤ اور رمضان کے روزے رکھواؤ، حرام کاموں سے بچاؤ، گناہوں سے پرہیز کراؤ، اخلاق و آداب سکھاؤ، اس بارے میں مارپیٹ کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو، ان کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ اگر ہم نے دین کے خلاف کام کیا تو پٹائی ہوگی۔ مقصد یہ نہیں کہ مار ہی بجاتے رہا کرو بلکہ مقصد یہ ہے کہ دین پر ڈالنے سے غافل نہ ہو اور گھر والوں کو دین پر چلانا اپنی ذمہ داری سمجھو، اگر ذرا سی بھی غفلت کروگے تو وہ دلیر ہوجائیں گے، جب نافرمانی پر اتر آئیں گے تو کوئی بات نہیں مانیں گے۔ بہت سے لوگ دنیا کے کام اپنے اہل و عیال سے بڑی سختی سے لیتے ہیں، ان سے دنیا کا کوئی معمولی نقصان بھی ہوجائے تو سخت داروگیر کرتے ہیں اور مار پٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتے، لیکن دینی معاملات میں بالکل ایسے ہوجاتے ہیں جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا اور انھیں کچھ اَتہ پتہ نہیں ہے کہ گھر میں کیا ہورہا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی نماز مسجد میں جاکر پڑھنے کا اہتمام کرلیتے ہیں۔ مگر گھر میں کس نے نماز پڑھی، کون سوتارہ گیا اس کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ یہ بڑی نادانی اور غفلت شعاری ہے۔ دنیا والے جن چیزوں کو ادب تہذیب سمجھتے ہیں اگرچہ وہ گناہ ہی ہوں، بعض لوگ اپنی اولاد کو ان چیزوں کو سکھانے میں بہت پیش پیش ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا ادب جو انسان میں ہونا چاہیے کہ اپنے خالق و مالک سے غافل نہ