تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’البلاغ‘‘ جاری فرمایا جس میں اس کتاب کا اکثر حصہ شائع ہوا۔ دنیا کی ساری چہل پہل اور گہما گہمی تنہا مردوں کے وجود سے نہیں ہے بلکہ اس کے آباد رکھنے اور اس کے چلانے کی صورتوں پرغور کرنے میں عورتوں کا بھی بڑا حصہ ہے، اسباب زندگی کو باقی رکھنے اور دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ہر عورت و مرد (بہ قدر اپنی فہم و فراست اور ہمت) اپنافرض منصبی سمجھتا ہے، مکان، دکان، جائیداد، آل و اولاد کو سب اپنی چیزیں سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ چیزیں فانی اور جدا ہونے والی ہیں، دین اور دین سے متعلقہ چیزیں بھی مسلمان کا ذاتی سرمایہ ہیں اور ایسا سرمایہ جو کبھی بے وفائی نہ کرے اور جس کی محنت و کوشش کبھی رائیگاں اور ضائع نہ ہو۔ جس طرح دنیا کے لیے محنت و کوشش تمام مرد و عورت کرتے ہیں اور دنیا کے کاروبار چلانے میں ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ دین اور دینیات کو زندگیوں میں جاری رکھنا اور دینی علم و عمل کو باقی رکھنا ہر مرد و عورت کی ذمہ داری ہے، قرآن شریف اور احادیث شریفہ میں بہت سی جگہ عورتوں کو خصوصی خطاب بھی فرمایا ہے اور اکثر مواقع پر مردوں کے خطاب میں عورتوں کو بھی شامل کرلیا گیاہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ فقہ اسلامی میں عورتوں کے لیے خصوصی احکام بھی بہت ہیں اور ایسے احکام تو بہت ہی زیادہ ہیں جن میں مرد و عورت سب شامل ہیں۔ دین کا علم و عمل جب مردوں اور عورتوں دونوں ہی فریق کے لیے ہے اور دین کا سیکھنا اور سکھانا سب کی ذمہ داری ہے تو اپنے اس فریضہ کو ادا کرنے کے لیے ہر مرد و عورت کو کوشاں رہنا ازبس ضروری ہے، قرن اول کی عورتوں نے دین کو پھیلانے اور دین کا چرچا کرنے میں بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں، تاریخ کی گواہی ہے کہ سب سے پہلے دین اسلام قبول کرنے والی شخصیت عورت ہی تھی، (یعنی حضرت خدیجہؓ) اور سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کرنے کی سزا میں جام شہادت نوش کیا وہ بھی عورت ہی تھی (یعنی حضرت عمارؓ کی والدہ حضرت سمیہؓ) ابوجہل بدبخت کے نیزہ مارنے سے حضرت سمیہؓ شہید ہوئیں، اس سے پہلے کوئی بھی مرد و عورت شہید نہ ہوا تھا۔ یہ بھی مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کا باعث ان کی بہن حضرت فاطمہ بنت الخطابؓ بنی تھیں۔ اور یہ بھی سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے کہ جب ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تو جہاں اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے مردوں نے ہجرت کی تو عورتیں بھی ساتھ تھیں، پھر ان پاکیزہ خواتین نے جہادوں میں بھی حصہ لیے اور دین کو سربلند دیکھنے کے لیے اپنے شوہروں اور بچوں کو جنگ کے میدانوں میں خوشی خوشی بھیجا کرتی تھیں، بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ بعض عورتوں نے اپنے شوہر وں کو جہاد کے لیے اکسا کر اور طعنے دے کر میدان کارزار کے لیے روانہ کیا۔ کیا آج کل کی عورتیں اسلام کا دم نہیں بھرتی ہیں، کیا ان کو اسلام سے نسبت اور تعلق