تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو روزہ رکھتے تھے۔ حضور اقدسﷺ کو اس کا پتہ چلا تو آپ نے فرمایا، اے عبداللہ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم روزانہ دن کو روزہ رکھتے ہو اوررات بھر نماز میں کھڑے رہتے ہو، کیا یہ خبر درست ہے؟ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یارسول اللہﷺ یہ خبر صحیح ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو (بلکہ) روزہ بھی رکھو اور بے روزہ بھی رہو، اور رات کو نماز میں قیام بھی کرو اور سو بھی جاؤ، کیوں کہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے (اگر ساری عمر روزہ رکھنے کا ثواب لینا چاہتے ہو) تو تم کو یہ کافی ہے کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھ لیا کرو کیوں کہ تم کو ہر نیکی کا بدلہ اس کا دس گنا ملے گا (اور اس طرح تین روزوں کے تیس روزے ہوجایا کریں گے) پس یہ ثواب کے اعتبار سے ہمیشہ روزہ رکھنا ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنے اندر اس سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں، آپ نے فرمایا تو اللہ کے نبی داود ؑ کے روزوں کی طرح روزے رکھو، اور اس پر اضافہ مت کرو، میں نے عرض کیا اللہ کے نبی داود ؑ کے روزوں کا کیا طریقہ تھا؟ فرمایا، آدھی عمر کے روزے رکھنا (یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن بے روزہ رہنا)۔1 (1 وہو مصرح فی روایتہ اخری عند البخاری: ۱/ ۲۶۵ کان یصوم یوما ویفطر یوما ) حضرت عبداللہؓ نے حضور اقدسﷺ کی اس رخصت پر عمل نہ کیا جو آپ نے ان کو شروع میں بتائی تھی، بلکہ یہ کہتے رہے کہ مجھ میں زیادہ قوت ہے۔ پھر جب بڑھاپے میں پہنچے تو فرمایا کرتے تھے، کاش! میں حضور اقدسﷺ کی رخصت پر عمل کرلیتا۔ (رواہ البخاری: ۱/ ۲۶۵ ) چوں کہ آدمی آدمی ہی ہے، یعنی اس کے ساتھ بشری لوازم لگے ہوئے ہیں، اس لیے اسے اپنے جسم اور اعضائے جسم کی رعایت رکھنا بھی ضروری ہے، اگر کوئی شخص نفس کے ساتھ سختی کرے گا تو نفس جواب دے دے گا، اور جو اعمال صالحہ شرو ع کر رکھے ہیں وہ بالکل ختم ہوجائیں گے۔ دوچار سال عبادت کی پھر تھک کر بیٹھ رہے، یہ نہ دین داری ہے نہ سمجھ داری ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا: اَحْبُّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ اَدْوَمُھَا وَاِنْ قَلَّ۔ (مسلم: ۲۶۶) ’’اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جو سب سے زیادہ پابندی کے ساتھ ہو، اگرچہ تھوڑا ہی ہو۔ ‘‘ علامہ نووی ؒ شرح صحیح مسلم میں تحریر فرماتے ہیں کہ تھوڑا عمل جو ہمیشہ ہو زیادہ عمل سے جو بعد میں چھوڑ دیا جائے اس لیے بہتر ہے کہ تھوڑا سا عمل جو ہمیشہ ہوتا رہے اس سے طاعات اور ذکر اور مراقبہ اور نیت اور اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہمیشہ ہوتی رہتی ہے اور تھوڑا عمل ہمیشگی والا ثواب کے اعتبار سے چند در چند ہوکر اس عمل کثیر سے بڑھ جاتا ہے جو کچھ دن ہوکر ختم