تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی قدر نہیں کی جاتی، اور اس وقت کو گانا سننے، ٹی وی دیکھنے، ہوٹلوں میں بیٹھنے، تاش کھیلنے اور لایعنی باتوں میں برباد کرتے ہیں، ان میں سے بہت سی باتیں گناہ ہیں اور جو گناہ نہیں۔ مثلاً لا یعنی باتیں وہ بھی اس اعتبار سے نقصان دہ ہیں کہ جس وقت میں لایعنی بات کی اس وقت میں اللہ کا ذکر کر سکتے تھے، اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیج سکتے ہیں (لایعنی بات اس کو کہتے ہیں کہ جس میں دین و دنیا کا نفع نہ ہو اور اس میں گناہ کا پہلو بھی نہ ہو) بہت سے حضرات جو یہ سطریں پڑھیں گے ان کے دل میں یہ بات آئے گی کہ یہ باتیں توٹھیک ہیں جویہاں لکھی ہیں، لیکن طبیعت نماز، روزہ اور ذکر و تلاوت کرنے پر اور لا یعنی باتوں بلکہ گناہوں کے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتی، اس کا جواب یہ ہے کہ طبیعت کو نہ دیکھیں، بلکہ آخرت کے عذاب وثواب کودیکھیں جہاں ہمیشہ رہنا ہے طبیعت توڑ کراور نفس کے تقاضے کو دبا کر شیطان کو ذلیل کریں، اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں، گناہوں کو چھوڑیں، نماز، روزہ ذکر و تلاوت میں لگیں، کیا دنیا کے بہت سے کام طبیعت کے خلاف نہیں کرتے۔ دیکھو رات کو میٹھی نیند سو رہے ہیں، بچہ نے بیدار ہو کر کہا کہ مجھے پائخانہ کرنا ہے میرے ساتھ چلو، نیند چھوڑ کر سردی میں لحاف سے نکل کر بچے کے ساتھ پائخانہ تک جاتے ہیں، دفتر میں ملازم ہیں، آفیسر سے طبیعت نہیں ملتی لیکن اس کی ماتحتی کے بغیر چارہ بھی نہیں طبیعت کے خلاف برسوں اس کی ماتحتی میں گزار دیتے ہیں۔ بات اصل یہ ہے کہ دنیا سامنے ہے اس کو تقاضا سمجھتے ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، اور آخرت سامنے نہیں ہے، اس لیے وہاں کے انعام و اکرام یا عذاب و تکالیف کی آیات و احادیث سن کر عمل کے لیے آمادہ نہیں ہوتے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخرت اگر اس وقت سامنے نہیں ہے تو یقینی تو ہے جب یقینی ہے تو اس کے لیے دوڑ دھوپ کیوں نہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ آخرت کا یقین ہی کمزور ہے ورنہ وہ ضرور عمل پر آمادہ کرتا۔ اہل اللہ کی کتابیں پڑھنے سے اور نیک بندوں کی صحبت اختیار کرنے سے آخرت کے یقین میں پختگی آتی ہے، اور اعمال صالحہ پر طبیعت آمادہ ہوجاتی ہے اور نفس بھی گناہ چھوڑ دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اللہ کے وہ بندے جن کی مجلسوں میں بیٹھنے سے اور جن سے خط و کتابت رکھنے سے طبیعت کا رخ دین کی طرف پھر جاتا ہے ابھی نا پید نہیں ہیں، ان کو تلاش کریں، اپنے بچوں کو ساتھ لے جائیں ان کے پاس اٹھیں بیٹھیں، وہاں سے آئیں تو مجلس کی باتیں گھر میں سنائیں، بچوں کو اور سب گھر والوں کو روزانہ لے کر بیٹھیں، دینی کتابیں سنائیں (ان کتابوں کی فہرست تربیت و تعلیم کے بیان میں گزر چکی ہے) خلاصہ یہ کہ کرنے کا کام کرنے سے ہوگا، نفس راضی ہو نہ ہو دین پر چلیں اور گھر والوں کو چلائیں، کتاب لکھنے والا تو لکھ ہی سکتا ہے، واعظ اچھی باتیں زبانی بتا سکتا ہے، مگر عمل تو ہر ایک کو خود ہی کرنا پڑے گا۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔ مانصیحت بجائے خود کردیم