تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جس نے نیکی کی توفیق دی اور اس کا احساس ہے کہ اس نے اپنی مرضی کے کام میں مجھے مشغول فرمادیا، اسی طرح گناہ سرزد ہوجانے پر بہت زیادہ رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ہائے مجھ سے خالق و مالک کی نافرمانی ہوگئی، اور مجھ جیسا حقیر و ذلیل مولائے کائنات جل مجدہ کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھا یا اللہ مجھے معاف فرما، درگزر فرما، میری مغفرت فرما، بخش دے، رحمت کی آغوش میں چھپالے۔ گناہ تو بندے سے ہو ہی جاتے ہیں، لیکن گناہوں میں جرات کرنااور گناہوں میں ترقی کرتے رہنا بہت بڑی نادانی ہے، ایک حدیث میں ارشاد ہے۔ کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّائٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ۔ (مشکوٰۃ) ’’یعنی تمام انسان خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو خوب توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘ حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ شیطان نے اللہ جل شانہٗ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے رب آپ کی عزت کی قسم ! میں آپ کے بندوں کو برابر صحیح راہ سے ہٹاتا رہوں گا، جب تک کہ ان کی روحیں، ان کے جسموں میں رہیں گی۔ پروردگار عالم جل شانہٗ نے فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال اور رفعت مکان کی قسم ہے جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں ان کو بخشتا رہوں گا۔ (مشکوٰۃ عن احمد) اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ توبہ و استغفار کرلینے کے گھمنڈ میں گناہ کرتے رہنادرست نہیں ہے، کیوں کہ آئندہ کا حال معلوم نہیں، کیا پتہ توبہ سے پہلے موت آجائے، پھر یہ بھی تجربہ ہے کہ توبہ و استغفار کی دولت انہی کو نصیب ہوتی ہے جو گناہوں سے بچنے کا دھیان رکھتے ہیں، اور کبھی کبھار گناہ ہوجاتا ہے تو توبہ کرلیتے ہیں اور جو لوگ مغفرت کی خوشخبریوں کو سامنے رکھ کر گناہ پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں ان کو توبہ و استغفار کا خیال تک نہیں آتا۔ اور واضح ہو کہ اللہ کی بڑی شان ہے، اس کی رحمت سے مایوس کبھی نہ ہوں، جتنے بھی زیادہ گناہ ہوجائیں، خواہ لاکھوں کروڑوں ہوں، اللہ کی مغفرت کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے: قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لاََ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبََ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (الزمر ۳۹۔ ۵۳) ’’(آپ میری طرف سے) فرمادیجیے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں، تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا، وہ بڑا بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ استغفار جہاں گناہوں کی معافی اور نیکیوں کی خامی اور کوتاہی کی تلافی کا ذریعہ ہے وہاں اور دوسرے بہت سے فوائد کا بھی سبب ہے، بارش لانے اور دوسرے بہت سے فوائد حاصل کرنے کے لیے کثرت سے استغفار کرنا چاہیے، قرآن مجید میں