تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(ابن ماجہ) ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مریض کی عیادت کی، اس کو بھی بخار چڑھا ہوا تھا، آپ نے ان سے فرمایا کہ تم خوش ہوجاؤ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ بخار میری (پیدا کردہ مخصوص قسم کی) آگ ہے، دنیا میں اپنے مومن بندوں پر مسلط کرتا ہوں، تاکہ (گناہوں کی وجہ سے) قیامت کے دن جو آگ کا عذاب ہوتا ہے اس کے عوض یہ بخارکی تکلیف دنیا میں قائم مقام ہوجائے۔ (ابن ماجہ) مرض کی صورت میں جو تکلیفیں مومن بندوں کو ہوتی ہیں، بڑی مبارک ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تکلیف مانگنی تو نہ چاہیے، لیکن اگر تکلیف آجائے تو بشاشت سے صبر کرو، عافیت کی دعا بھی کرتے رہو، لیکن تکلیف کی وجہ سے اجر و ثواب کی بھی پختہ امید رکھو، امراض گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں اور ثواب کی امید رکھنے سے مرض کی تکلیف ہلکی ہوجاتی ہے، مومن بندوں کی عجیب شان ہے، تندرست ہوتے ہیں تو خوب عبادت کرتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو صبر کرکے ثواب پاتے ہیں، اور بیماری گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور چونکہ بیماری میں بہت بڑا فائدہ ہے اس لیے مومن بندہ کے حق میں بیماری مصیبت نہیں رہتی، فانما المصاب من حرم الثواب اور تکلیف کی وجہ سے جو اعمال صالحہ چھوٹ جاتے ہیں ان کا ثواب بھی ملتا ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تکلیف والے بندوں کو قیامت کے دن ثواب ملنے لگے تو عافیت والے لوگ جو بیمار نہیں ہوتے تھے تمنا کریں گے کاش دنیا میں ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی جاتیں (تاکہ بہت زیادہ اجر و ثواب کے مستحق ہوتے) (ترمذی شریف) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اس وقت آپ بخار میں مبتلا تھے، میں نے جو ہاتھ لگایا تو بہت شدت محسوس ہوئی، عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو بہت سخت بخار آتا ہے؟ فرمایا ہاں میرا بخار تم میں سے دو آدمیوں کے بخار کے برابر ہوتا ہے، میں نے عرض کیا، یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا ثواب دوہرا ہے؟ فرمایا ہاں، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ جس کسی مسلمان کو مرض یا اور کسی وجہ سے تکلیف پہنچے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے ذریعہ سے اس کے گناہوں کو اس طرح مٹادیں گے جیسے درخت سے پتے گر جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم) ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی ایسی مثال ہے جیسے کھیتی کے پودوں کو ہوائیں جھکاتی چلی جاتی ہیں، کبھی گراتی ہیں، کبھی سیدھا کردیتی ہیں (اسی طرح مومن بندہ کچھ نہ کچھ دکھ تکلیف میں رہتا ہے) یہاں تک کہ اس کی موت آجائے، اور منافق کی مثال ایسی ہے جیسے سرو کا درخت جو اچھی طرح سے زمین میں ثابت اور راسخ ہو (ہوائیں اسے ہلاتی جھلاتی نہیں ہیں) یہاں تک کہ اس کا اکھڑنا دفعتاً ایک ہی بار ہوجاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)