تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَتُکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ مُؤْمِنٌ۔ ’’جب نیکی کرنے سے تیرا دل خوش ہو اور برائی سے تیرا دل دکھے تو (سمجھ لے) تو مومن ہے۔ ‘‘ اس شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہ (کی نشانی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اِذَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ شَیْئٌ فَدَعْہُ۔ (مشکوۃ المصابیح ص ۱۶ عن مسند احمد) ’’یعنی جب کوئی چیز تیرے دل میں کھٹکے تو اسے چھوڑ دینا۔ ‘‘ مطلب یہ ہے کہ جب کسی کام کے متعلق اچھا یا برا ہونے میں تردد ہو اور اس کے کرنے کے تصور سے دل میں بے چینی کی سی کیفیت معلوم ہوتی ہو تو اسے نہ کرنا، کیوں کہ یہ گناہ ہونے کی نشانی ہے، یہ بات ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں اور دل کو سنوارنے کی فکر میں رہتے ہیں، اور جو شخص گناہوں سے بچنے کی فکر نہیں کرتا اس کے دل کا ناس ہوجاتا ہے، پھر اس کو نیکی بدی کا احساس نہیں رہتا، اور گناہ پر خوش ہوتا ہے، دل کے اندر جو گناہوں کی وجہ سے ٹیس ہونی چاہیے و ہ نہیں ہوتی۔ اسی قلبی کھٹک او رچبھن نے اس صحابی خاتون کو مسئلہ معلوم کرنے پر مجبور کیا اور انھوں نے فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلف نفس کا کھوٹ ظاہر کردیا اور عرض کیا۔ میرے دل میں اپنی سوتن کو جلانے کے لیے ایسا خیال آیا ہے، اگر میں ایسا کروں تو کیا اس میں گناہ ہوگا؟ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۱۶ عن مسند احمد) قربان جایئے سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے، جواب میں کیا ارشاد فرمایا؟ بہت پرمغز جملہ ارشاد فرمایا، جس سے اس مقدس خاتون کے جزوی سوال کا جواب بھی ہوگیا اور ایک مستقل قاعدہ کلیہ امت کو مل گیا جو زندگی کے ہر شعبہ میں کام دے سکتا ہے، اور ہر صاحب فہم اس کی روشنی میں سچائی کا پتلا بن سکتا ہے، ارشاد فرمایا: اَلْمُتَشَبِّعُ بِمَالَمْ یُعْطَ کَلَاَبِسِ ثَوْبِیْ زُوْرٍ۔ ’’یعنی جس کو کوئی چیز نہیں ملی اور اس کے باوجود جھوٹ کہتاہے کہ مجھے ملی ہے وہ ایساہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے۔ ‘‘ یعنی اس نے سر سے پائوں تک اپنے اوپر جھو ٹ ہی جھوٹ لپیٹ لیا، کسی کی زبان جھوٹی ہوتی ہے، لیکن یہ پورے کا پوراجھوٹا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح غلط بات سے زبان جھوٹی ہوجاتی ہے، غلط کردار سے دیگر اعضاء بھی جھوٹے قرا ردے دیئے جاتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہر اس شخص کو نصیحت و عبرت حاصل کرنی چاہیے جو کسی چیز کا مالک نہ ہو اور ظاہر کرتا ہو کہ میں اس کا مالک ہوں، جیسے بہت سی عورتیں مانگ کر بیاہ شادی کے موقع پر زیور پہن کر چلی جاتی ہیں اور شیخی بگھارنے کے لیے یہ باور کراتی ہیں کہ ہمارا زیور ہے، شیخی بگھارنا یوں بھی برا ہے، چہ جائیکہ