تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کردیا) حضرت اسماءؓ نے برجستہ جواب دیا کہ میرے نزدیک اس جنگ کا خلاصہ یہ ہے کہ تو نے میرے بیٹے کی دنیا خراب کردی اور اس نے تیری آخرت خراب کردی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۵۵۲ بحوالہ صحیح مسلم) عبدالملک بن مروان کی جانب سے حکم آنے پر حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ کی نعش کو حجاج بن یوسف نے صلیب سے اتروادیا، حضرت اسماءؓ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی تھیں کہ اے اللہ مجھے اس وقت تک موت مت دیجیئو جب تک میرے بیٹے کی لاش میرے پاس نہ آجائے۔ حضرت ابن ابی ملیکہ نے فرمایا۔ میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے حضرت اسماءؓ کو اس بات کی خوشخبری دی کہ آپ کے بیٹے کی لاش صلیب سے اتار دی گئی ہے۔ انھوں نے ایک ٹب منگوایا اور مجھے حکم دیا کہ اس لاش کو غسل دے دو، چناں چہ ہم نے غسل دینا شروع کیا۔ جس عضو کو ہاتھ لگاتے تھے ہاتھ کے ساتھ اکھڑا چلا آتا تھا، ہم غسل دیتے رہے اور اعضاء کو کفن کے کپڑوں میں ترتیب سے رکھتے رہے۔ جب غسل و کفن سے فارغ ہوئے تو حضرت اسماءؓ نے اپنے بیٹے کی نما زجنازہ ادا کی۔ (الاستیعاب، الاصابہ) آج کہاں ہیں ایسے بہادر لڑکے اور ایسی نڈر اوربے باک مائیں۔ حضرت اسماءؓ کی ہمت اور حق گوئی کو دیکھو اور حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ کی عبادت اور شجاعت پر نظر کرو۔ یہ حضرات صحابہؓ کے حالات ہیں۔ ان میں مرد اور عورتیں اور بچے سب ہی اسلام کے شیدا اور جاں نثار تھے۔ اللہ جل شانہٗ ان کی بہادری اور دلیری اور عبادت اور اخلاص نیت کا کچھ حصہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔ حضرت اسماءؓ کے سر میں اگر درد ہوجاتا تھا تو سر پر ہاتھ رکھ کریہ فرماتی تھیں کہ یہ گناہوں کی وجہ سے ہے جو بعض گناہوں کی سزا ہے اور جو گناہ اللہ پاک بغیر سزا معاف فرمادیتے ہیں وہ تو بہت زیادہ ہیں (الاستیعاب) شادی کے بعد ابتدائی زندگی بہت تنگی کی گزاری، فرماتی تھیں کہ جب زبیر بن عوام سے میرا نکاح ہوا تو ان کی ملکیت میں نہ کوئی مال تھا نہ غلام تھا اور نہ کوئی چیز تھی، ایک گھوڑا تھا جسے میں چارہ کھلاتی تھی اور اس کی خدمت کرتی تھی اور ان کے اونٹ کو کھجور کی گٹھلیاں کوٹ کر کھلاتی تھی اور یہ گٹھلیاں ان کی زمین سے اپنے اوپر لاد کر لاتی تھی، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک خادم بھیج دیا جس نے گھوڑے کی خدمت کا کام سنبھال لیا، جس کی وجہ سے مجھے محنت کے کاموں میں کچھ آسانی ہوگئی۔ (الاصابہ) حضرت اسماءؓ کا لقب ’’ذات النطاقین‘‘ تھا۔ نطاق پٹکہ کو کہتے ہیں (جو کپڑا محنت کا کام کاج کرنے یا زینت کے لیے کمر میں باندھ لیا جاتا ہے) جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت اسماءؓ نے سفر کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس کو باندھنے کا ارادہ کیا تو ایسی کوئی چیز نہ ملی جس سے کھانے کا سامان باندھ دیتیں۔ لہٰذا اپنا دوپٹہ پھاڑ کر آدھے سے زاد راہ یعنی سفر کا توشہ باندھ دیا اور آدھا اپنی کمر سے باندھ لیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس موقعہ پر ان کے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ اپنا پٹکا پھاڑ کر ایک ٹکڑے سے مشکیزہ