تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انھوں نے کسی دوسرے مرد سے نکاح کی اجازت چاہی۔ چناں چہ آپ نے اجازت دی اور انھوں نے نکاح کرلیا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۲۸۸ بحوالہ بخاری) تشریح: جب کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا مرجائے تو عورت پر عدت گزارنا لازمی ہوتا ہے۔ یعنی شریعت کے اصول کے مطابق مخصوص و مقرر ایام گزر جانے تک اسے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اس کے علاوہ بھی عدت کے ایام میں کچھ اور پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ حدیث بالا میں عدت سے متعلق ایک مسئلہ ذکر فرمایا ہے جس کی تشریح ابھی آتی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جب کسی عورت کو طلاق ہوجائے تو دیکھا جائے گا کہ یہ شوہر کے یہاں گئی ہے یا نہیں گئی ہے۔ اگر شوہر کے یہاں نہیں گئی یعنی میاں بیوی میں یکجائی نہیں ہوئی اور صرف نکاح کے بعد طلاق ہوگئی تو ایسی عورت پر کوئی عدت لازم نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ِاذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا فَمَتِعُّوْھُنَّ وَسَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلاًَ۔ (سورہ الاحزاب) ’’اے ایمان والو! تم جب مسلمان عورتوں سے نکاح کرو، پھر تم ان کو قبل ہاتھ لگانے کے طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں جس کو تم شمار کرنے لگو تو ان کو کچھ متاع دے دو اور خوبی کے ساتھ ان کو رخصت کردو۔‘‘ اور اگر نکاح کے بعدمیاں بیوی میں یکجائی ہوچکی ہے تو دیکھا جائے گا کہ عورت کو حمل ہے یا نہیں، اگر عورت کو حمل ہو تو اس کی عدت وضع حمل پر ختم ہوگی، یعنی جب تک ولادت نہ ہوجائے اس وقت تک عدت میں رہے گی۔ خواہ ایک دن بعد وضع حمل ہوجائے، خواہ کئی مہینے لگ جائیں یا سال ڈیڑھ سال یا اس سے بھی زیادہ لگ جائے۔ (واضح رہے کہ شریعت میں حمل کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے) اور اگر اسے حمل نہ ہو تو اس کی عدت یہ ہے کہ تین ماہواری گزر جائے اس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔ جتنے دن میں تین حیض گزریں اتنے دن تک عدت میں رہنا ہوگا۔ عورتوں میں یہ جو مشہور ہے کہ تین مہینے تیرہ دن یا تین مہینے دس دن عدت ہے، شرعاً اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ عدت کا مدار حمل ہونے کی صورت میں وضع حمل پر اور حمل نہ ہونے کی صورت میں تین حیض گزر جانے پر ہے۔ مسئلہ: اگر کسی عورت کو ایسی حالت میں طلاق ہوئی کہ اسے اب تک حیض نہیں آیا یا زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو اس کی عدت تین ماہ ہے۔ یہ تین ماہ چاند کے حساب سے شمار ہوں گے۔ قرآن مجید نے ان مسائل کو سورہ بقرہ اور سورہ طلاق میں بیان فرمایا ہے۔ سورئہ بقرہ میں ارشاد ہے: وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلاََثۃَ قُرُوْئٍ۔ ’’یعنی جن عورتوں کو طلاق دے دی جائے وہ تین حیض تک اپنے کو نکاح سے روکے رکھیں۔ ‘‘