تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اس نصیحت کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ کوسنے، پیٹنے میں ان کی زبان بہت چلتی ہے، بات بات میں شوہر کو، بچوں کو، جانوروں کو حتیٰ کہ گھر کی ہر چیز کو اپنی بددعا کا نشانہ بنادیتی ہیں، جہاں کسی بچہ نے کوئی شرارت کی کہہ دیا تجھے ڈھائی گھڑی کی آئے، کسی کو کہہ دیا لوٹنی لیا، کسی کو ہیضہ کی کلی کی بددعا دے دی، کسی کو اللہ مارا بنادیا، اور کوئی سامنے نہ آیا تو بکری ہی کو کوسنے لگیں، مرغی کا ناس ہو یا کپڑے کو آگ لگنے کی بددعادے دی، لڑکے کو کہہ دیا تو مرجاتا، لڑکی کو کہہ دیا کہ تیرا برا ہو، وغیرہ۔ غرضیکہ کوسنے پیٹنے کا اور بددعا کاڈھیر لگادیتی ہیں اور یہ نہیں سمجھتیں کہ ان میں سے اگرکوئی بددعا اللہ جل جلالہ کے یہاں مقبول ہوگئی اور کوئی بچہ مرگیا، یا مال کو آگ لگ گئی یا اور کسی طرح کا نقصان ہوگیا تو کیاہوگا؟ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مقبولیت کی گھڑی بددعا کے الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں اور جو مانگا وہ مل جاتا ہے۔ جب کسی طرح کا کوئی مالی یا جانی نقصان پہنچ جاتا ہے تو رونے اور ٹسوے بہانے بیٹھ جاتی ہیں اور یہ نہیں سمجھتیں کہ یہ اپنی ہی بددعا کا نتیجہ ہے۔ اب رونے سے کیا ہوتا ہے؟ اللہ سے جو مانگا مل گیا۔ پہلے سے زبان پر قابو کیوں نہ رکھا، بہت سے مرد بھی ایسی جاہلانہ حرکت کرتے ہیں کہ اپنے لیے یا اولاد کے لیے یا کاروبار کے لیے بددعا زبان سے نکال بیٹھتے ہیں، مرد ہوں یا عورت سب کو اس حدیث میں تنبیہ فرمائی ہے کہ اپنے لیے اور اپنی جان و مال کے لیے بددعا نہ کیا کریں۔ اللہ جل جلالہ کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے، وہ نفع و ضرر دونوں کا مالک ہے۔ موت ہو یا زندگی اس کے ارادہ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ وہ قادر مطلق ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔ اس سے مانگنا ہے تو بدحالی اور ضرر اور شر کی دعا کیوں مانگیں ؟ اس سے ہمیشہ خیر ہی کی دعا مانگنا لازم ہے۔ حضور اقدس ﷺ ایک صحابی کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے، وہ کمزوری کے باعث چوزے کی طرح نظر آرہے تھے، ان کا حال دیکھ کر حضور اقدس ﷺ نے دریافت فرمایا، کیا تم اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی دعا کرتے رہے ہو؟ یا کسی بات کا سوال کرتے رہے ہو؟ انھوں نے عرض کیا کہ میں یہ دعا کرتا تھا کہ اے اللہ مجھے آپ آخرت میں جو سزا دینے والے ہیں وہ سزا ابھی مجھے دنیا میں دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا، سبحان اللہ۔ تمہیں اس (عذاب کے سہنے)کی طاقت نہیں ہے۔ تم نے یہ دعا کیوں نہ کی: اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فیِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے۔ یعنی دونوں جہاں میں اچھی حالت میں رکھ اور عذاب دوزخ سے بچا۔ اس حدیث کے راوی حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اس دن کے بعد ان صاحب نے یہی دعا کی اور اللہ جل جلالہ نے ان کو شفا دے دی۔ (مسلم) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ دعا سوچ سمجھ کر مانگنی چاہیے اور دکھ تکلیف کی