تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید البتہ یہ ضروری نہیں کہ مظلوم کی بددعا ہمیشہ ہی جلد سے جلد قبول ہوجائے۔ بعض مرتبہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہوتا ہے کہ دیر سے قبول ہو۔ اسی لیے حدیث میں ارشاد فرمایا کہ اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں کہ میں ضرور ضرور تیری مدد کروں گا، اگرچہ کچھ عرصہ کے بعد ہو۔ اور یہ ضروری نہیں کہ جس مظلوم کی بددعا لگے وہ نیک آدمی ہو یا مسلمان ہی ہو۔ چوں کہ اس کی دعا کی مقبولیت کی وجہ اس کی مظلومیت ہے، اس لیے مظلوم اگر فاجر، فاسق اور بڑا گناہ گار ہو بلکہ اگر کافر ہی ہو تب بھی اس کی بددعا ظالم کے حق میں قبول ہوجاتی ہے۔ اسی لیے روایات حدیث ’’وَاِنْ کَانَ فَاجَرًا‘‘ اور ’’وَلَوْ کَانَ کَافِرًا‘‘ کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ (حصن حصین) بہت لوگ جن کو مال و دولت یا عہدہ کی وجہ سے کوئی بڑائی حاصل ہوجاتی ہے، لوگوں کو بات بات میں مار پیٹ کرتے ہیں، طرح طرح سے ستاتے ہیں، مال چھین لیتے ہیں، غنڈوں سے پٹوادیتے ہیں بلکہ قتل تک کرادیتے ہیں، کچھ دن تو ان کی زندگی مال اور عہدہ کے ساتھ گزر جاتی ہے، لیکن جب کسی مظلوم کی دعا اثر کرجاتی ہے تو مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں اور طرح طرح کی تدبیریں سوچتے ہیں، لیکن کوئی کارگر نہیں ہوتی۔ کیوں کہ مظلوم کی بددعا جو ان کے حق میں قبول ہوجاتی ہے وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ ظالم ظلم کرکے بھول جاتا ہے اور پتہ بھی نہیں ہوتا کہ میں نے کس کس کو ستایا اور دکھ پہنچایا ہے۔ اگر مظلوم سے معافی بھی مانگنا چاہے تو مظلوم کا پتہ نہیں چلتا۔ ہوشیار بندے وہی ہیں جو کسی پر جانی اور مالی ظلم نہیں کرتے، اللہ پاک اپنے حقوق کو معاف فرمادیتا ہے، لیکن اس کے کسی بندہ پر کسی طرح کا کوئی ظلم کردے تو اس کی معافی اسی وقت ہوگی جب کہ وہ مظلوم معاف کرے۔ بعض کتابوں میں یہ قصہ لکھا ہے کہ ایک غریب آدمی مچھلی لیے جارہا تھا۔ ایک سپاہی نے اس کی مچھلی چھین لی اور گھر لے جاکر جب مچھلی بنانے لگا تو اس کا ایک کانٹا انگوٹھے میں لگ گیا (انگوٹھے میں ہلکا سا زخم ہوا، پھر زخم بڑھا، حتیٰ کہ انگوٹھا سڑنے لگا۔ بہت علاج کیا، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر انگوٹھا کٹوادیا، اس کے بعد ہتھیلی اور انگلیوں میں زخم پیدا ہوگیا، جب کسی طرح کے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا تو پہنچے سے ہاتھ کٹوادیا تاکہ آگے سے ہاتھ محفوظ ہوجائے، لیکن پھر پہنچے کے اوپر زخم ہوگیا اور اتنا بڑھا کہ آگے بھی کٹوانے کی ضرورت ہوگئی۔ اللہ کے ایک نیک بندے کو یہ حال معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ کب تک تھوڑا تھوڑا کرکے اپنا ہاتھ کٹواتا رہے گا، مظلوم سے معافی مانگ تاکہ اس مصیبت سے نجات ہو۔ بالآخر مچھلی والے کو تلاش کیا اور اس سے معافی مانگی۔ جب اس نے معاف کیا تو مصیبت دور ہوئی، ظلم بہت بدترین چیز ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے