تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مانگنا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۱۷۳ بحوالہ بیہقی شعب الایمان والترغیب والترہیب للمنذری) تشریح: انسان کی تخلیق عبادت اور محض عباد ت کے لیے ہے، جیسا کہ سورۂ ذاریات میں فرمایا گیا۔ {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo}1 (1 الذاریات: ۵۶ اور میں نے انسان اور جن کو نہیں پیدا کیا مگر اس واسطے کہ وہ میری عبادت کریں۔ روزہ بدنی عبادت ہے جو پہلی امتوں پر بھی فرض تھا۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍط}1 (1 البقرۃ: ۱۸۳، ۱۸۴ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بنو، یہ روزے چند دن کے ہیں۔ روزہ کی حکمت: {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} میں روزہ کی حکمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ تقویٰ صغیرہ و کبیرہ، ظاہرہ اور باطنہ گناہوں سے بچنے کا نام ہے، آیت کریمہ نے بتایا کہ روزہ کی فرضیت تقویٰ حاصل کرنے کے لیے ہے، بات یہ ہے کہ انسان کے اندر بہیمیت کے جذبات ہیں۔ نفسانی خواہشات لگی ہوئی ہیں، جن سے نفس کا ابھار معاصی کی طرف ہوتا رہتا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے بہیمیت کے جذبات کمزور ہوتے ہیں اور نفس کا ابھار کم ہوجاتا ہے اور شہوات و لذات کی امنگ گھٹ جاتی ہے۔ پورے ماہ رمضان کے روزے رکھنا ہر عاقل، بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ ایک مہینہ کھانے پینے اور جنسی تعلقات کے مقتضی پر عمل کرنے سے اگر باز رہے تو باطن کے اندر ایک نکھار اور نفس کے اندر سدھار پیدا ہوجاتا ہے، اگر کوئی شخص رمضان کے روزے ان احکام و آداب کی روشنی میں رکھ لے جو قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں تو واقعتاً نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے، پھر نفس میں ابھار ہوتا ہے تو آئندہ رمضان آموجود ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی مشروع کیے گئے ہیں۔ ان روزوں کا مستقل ثواب ہے جو روایات حدیث میں مذکور ہیں اور ثواب کے علاوہ نفلی روزوں کا یہ فائدہ بھی ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھتے وقت جو عملی کوتاہیاں ہوئیں اور آداب کی رعایت ملحوظ نہ رہی اس کوتاہی کی تلافی ہوجاتی ہے۔ جو گناہ انسان سے سرزد ہوجاتے ہیں ان میں سب سے زیادہ دو چیزیں گناہ کا باعث بنتی ہیں، ایک منہ، دوسری شرم گاہ، چناں چہ امام ترمذی ؒ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا کہ حضورﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ کون سی چیز دوزخ میں داخل کرنے کا ذریعہ بنے گی؟ آپ نے جواب دیا: اَلْفَمُّ وَالْفَرْجُ یعنی منہ اور شرم گاہ۔ ان دونوں کو دوزخ میں داخل کرانے میں زیادہ دخل ہے، روزہ میں منہ اور