تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
تشریح: حضرت اسماء اور ان کے والد حضرت ابوبکر صدیق ؓ تو بہت پہلے مسلمان ہوگئے تھے، بلکہ حضرت ابوبکر ؓ تو بالغ مردوں میں سب سے پہلے مسلمان ہیں ۔ لیکن حضرت اسماء ؓ کی والدہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئی تھیں جس وقت کا یہ قصہ ہے۔ حضور اقدسﷺ کفار مکہ کی ایذاؤں سے تنگ آکر اپنے اصلی وطن اور باپ دادوں کے دیس یعنی مکہ معظمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے جس کو ہجرت کہتے ہیں، کافروں نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور لڑائیاں لڑتے رہے۔ جس کے نتیجے میں جنگ بدر اور جنگ احد ہوئی، ان دونوں جنگوں کے قصے بہت مشہور ہیں اور تاریخ اسلام میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ جب مسلمانوں نے کافروں کے مقابلے میں جوابی کارروائی کی تو کافروں کے دانت کھٹے کردیئے اور ان کو لینے کے دینے پڑگئے۔ اگرچہ مسلمان اس زمانہ میں بہت ہی کم تھے اور کافروں کی تعداد بہت زیادہ تھی، مگر مسلمانوں کی ہمت بہت زیادہ اور ایمان بہت مضبوط اور پکا تھا، اللہ کے لیے مرنے سے محبت کرتے تھے، اس لیے کافر لوگ ان کو نیچا نہ دکھا سکے اور خود مجبور ہوکر دس سال کے لیے خاص خاص شرطوں پر صلح کرنے پرآمادہ ہوگئے۔ یہ صلح ۷ ہجری میں ہوئی، ان شرطوں میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ فریقین میں سے کوئی ایک فریق ایک دوسرے پر حملہ نہ کرے گا۔ چوں کہ یہ صلح مقام حدیبیہ میں ہوئی، اس لیے صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ صلح ہوجانے کے بعد فریقین کو امن مل جانے کے باعث آپس میں ملنا جلنا اور ایک دوسرے کے پاس آنا جانا شروع ہوا، مذہب کے لحاظ سے گو دشمنی تھی مگر فریقین کے آپس میں خونی رشتے تھے جن کی وجہ سے طبعی طور پر ملاقاتوں کو جی چاہتا تھا، حال یہ تھا کہ بیٹا کافر ہے تو باپ مسلمان اور باپ کافر ہے تو بیٹا مسلمان، ماں کافر بیٹی مومن، ایک بھائی دین حق پر دوسرا شرک پر۔ ایک بتوں کا پجاری دوسرا مالک حقیقی کا پرستار، جو مسلمان تھے سارا دھن دولت مکہ میں چھوڑ کر قرابت داری کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر مدینہ منورہ میں آکر بس گئے تھے کیوں کہ ان کے دل میں اللہ بس گیا تھا۔ صلح حدیبیہ کے زمانے میں جب امن ہوا اور ملاقات کا موقعہ نکلا تو بعض لوگوں نے اپنے عزیزوں سے ملنے کا ارادہ کیا، اسی زمانے میں حضرت اسماء ؓ کی والدہ مکہ سے مدینہ آئیں ۔ حدیث میں فِیْ عَھْدِ قُرَیْشٍ کا یہی مطلب ہے۔ یہ اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں اور چوں کہ ضرورت مند تھیں، اس لیے ان کی خواہش تھی کہ بیٹی سے کچھ ملے لیکن بیٹی اب صرف بیٹی نہ تھی بلکہ حق کی متوالی اور اسلام کی رکھوالی تھی۔ سوچا کہ ماں اگرچہ ماں ہے مگر ہے تو مشرک، اس پر خرچ کرنا اللہ کی رضا کے خلاف تو نہیں ؟ دل میں کھٹک ہوئی۔ بارگاہ رسالت میں حاضری دی اور عرض کیا یارسول اللہﷺ والدہ آئی ہیں، ان کی تمنا ہے کہ ان کی مالی امداد کروں، اس بارے میں جو کچھ ارشاد ہو عمل کروں ۔ رحمت للعالمینﷺ نے فرمایا کہ ان کی مدد کرو اور صلہ رحمی کا برتاؤ کرو۔