تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۔ جن کی جان ہی پیسہ ہے، پیسے ہی کے لیے جیتے ہیں اور اسی کے لیے مرتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ایسے لوگوں کو عبدالدینار والدرہم فرمایا۔ حضور اقدسﷺ کو ایسے لوگ بہت ناپسند تھے۔ ایک بار آپ نے فرمایا: تَعِسَ عَبْدُالدِّیْنَارِوَعَبْدُالدِّرْھَمِ وَعَبْدُالْخَمِیْصَۃ اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَاِنْ لَّمْ یُعْطَ سَخَطَ تَعِسَ وَانْتُکِسَ وَاِذَا شِیْکَ فَلَا انْتُقِشَ۔ (مشکاۃ: ۴۳۹، عن البخاری) بے مراد ہو روپے پیسہ اور چادر کا غلام ، جس کا یہ حال ہے کہ اگر اسے مل جائے تو راضی اور نہ ملے تو خفا ہوجائے۔ ایسے شخص کا برا ہو اور اس کے لیے بربادی ہو اور اگر اس کے کانٹا لگ جائے تو خدا کرے کوئی نہ نکالے۔ دوسرا مطلب وَلَا تُحْصِیِ کا محدثین نے یہ بتایا ہے کہ ضرورت مند اور فقیر کو دیتے وقت اس لیے نہ گننا کہ کہیں زیادہ تو نہیں جارہا ہے اور دل کھنچ رہا ہے ایک پیسہ دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تھا مگر دو پیسے کا سکہ ہاتھ میں آگیا۔ اب سوچ رہے ہیں کہ یہ تو ایک پیسہ زیادہ ہے۔ فقیر کی طرف ہاتھ بڑھنے کے بجائے واپس جیب میں جارہا ہے تاکہ ایک پیسہ کا سکہ نکالا جائے۔ یہ بھی حب مال کی دلیل ہے۔ پھر فرمایا: فَیُحْصِیِ اللّٰہُ عَلَیْکِ یعنی اگر تم گن گن کر رکھوگی اور جمع کرنے کی فکر میں پڑوگی یا فقیرکو دیتے وقت گنتی کروگی تاکہ پیسہ دو پیسہ زیادہ نہ چلا جائے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کے یہاں سے بھی گن کر ملنے لگے گا یا اگر بہت ہوگا تو اس کی برکت ختم کردی جائے گی، بے برکتی کی وجہ سے بہت زیادہ مال ایسا پٹ ہوجائے گا جیسے دوچار پیسے ہوتے ہیں ۔ بعض حضرات نے کہا کہ فَیُحْصِیِ اللّٰہُ عَلَیْکِ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم غریبوں پر خرچ کرتے وقت یہ خیال کروگی کہ کہیں زیادہ تو نہیں چلا گیا تو ایسی صورت میں اللہ جل جلالہ وعم نوالہ بھی اپنے دیئے مال کا حساب لیتے وقت سختی فرمائیں گے اور چھان بین کے ساتھ حساب لیں گے۔ پھر اس وقت کہاں ٹھکانا ہوگا۔ اللہ نے تمہیں دیا ہے تم اس کی مخلوق پر خرچ کرو۔ قرآن شریف میں ہے: {وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ}1 (1 القصص:۷۷) یعنی مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کرو، جیسے خدا نے تمہارے ساتھ احسان کیا۔ سوم: یہ نصیحت فرمائی کہ وَلَا تُوْعِیْ فَیُوْعِی اللّٰہُ عَلَیْکِ۔ یعنی جمع کرکے نہ رکھنا ورنہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے خزانہ غیب سے تمہیں نہ نوازیں گے اور اپنی داد و دہش میں کمی فرمادیں گے۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کے یہاں سے بہت ملتا ہے اور رزق میں کشائش ہوتی ہے اور اگر تھوڑا ہو تو اس میں برکت بہت ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو جمع کرنے کا ذوق ہوتا ہے اپنی ضروریات بھی دباتے رہتے ہیں ۔ بچوں پر خرچ کرنے میں کمی کرتے ہیں، پھر دوسرے محتاجوں کو دینے کا سوال ہی کیا ہے۔ ایسے لوگ وہ فرائض بھی ادا نہیں کرتے جو مال سے متعلق ہیں، زکوٰۃ، صدقہ فطر، قربانی اور بندوں کے واجب حقوق، والدین کے اخراجات وغیرہ کی