تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فَاِذاَ کَسَلَتْ اَوْفَتَرَتْ اَمْسَکَتْ بِہٖ فَقَالَ حُلُّوْہُ فَقَالَ لِیُصَلِّ اَحَدُکُمْ نِشَاطَہٗ فَاِذَا کَسَلَ اَوْفَتَرَ فَلْیَقْعُدْ۔ (رواہ ابوداود عن شیخہ زیاد وہارون و زیادۃ ذکر زینب من زیاد)1 (1 واخرجہ البخاری۔جلد۱، صفحہ۱۵۴ و مسلم۔جلد۱، صفحہ۲۶۶ واقتصرا علیٰ ذکر زینب ؓ) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ (رات کو) حضور اقدسﷺ مسجد میں داخل ہوئے (دیکھا کہ) ایک رسی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی ہے، فرمایا یہ کیسی رسی ہے؟ جواب میں عرض کیا گیا کہ یہ حمنہ بنت جحش ہیں (جو دیر تک رات کو نماز پڑھتی رہیں، انھوں نے یہ باندھی ہے) نماز پڑھتے پڑھتے جب تھک جاتی ہیں تو (سستی اتارنے کے لیے) اس سے لٹک جاتی ہیں۔ آپ نے فرمایا جب تک طاقت ہو نماز پڑھتی رہے، جب تھک جائے تو بیٹھ جائے، پھر (آپ نے ایک اور رسی دیکھی)فرمایا یہ کیا ہے۔ حاضرین نے جواب دیا کہ زینبؓ (نے باندھی ہے، وہ رات کو)نماز پڑھتی رہتی ہیں، جب سستی آجاتی ہے تو اس کو پکڑلیتی ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو کھول دو، پھر (مستقل طریقہ سے قاعدہ بتاتے ہوئے)ارشاد فرمایا کہ جب تک طبیعت میں بشاشت رہے (نفل)نماز پڑھتے رہو، پھرجب سستی آجائے تو بیٹھ جانا چاہیے۔ ۲۸۔ وَعَنِ ابْنِ شَھَابٍ قَالَ اخْبَرْنِیْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ اَنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ﷺ اَخْبَرْتَہٗ اَنَّ الْحَوْلَائَ بِنْتَ تُوَیْتَ بْنِ حَبِیْبِ بْنِ اَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزّٰی مَرَّتْ بِھَا وَعِنْدَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَقُلْتُ ھَذِہٖ الْحَوْلَائُ بِنْتُ تُوَیْتٍ وَزَعَمُوْا اَنَّھَا لَا تَنَامُ اللَّیْلَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَا تَنَامُ اللَّیْلَ؟ خُذُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَاتُطِیْقُوْنَ فَوَاللّٰہ لِاَیَسْأَمُ اللّٰہُ حَتٰی تَسْأَمُوْا۔ (رواہ مسلم)1 (1 واخرجہ البخاری بلفظ فدخل علی رسول اللّٰہ ﷺ فقال من ہذہ فقلت فلا نۃ لاتنام باللیل فذکر من صلاتھا فقال مہ الحدیث) حضرت عائشہؓ نے (اپنے بھانجے) حضرت عروۃ بن الزبیرؓ کو بتایا کہ (ایک مرتبہ) حولاء بنت تویت (صحابی خاتون) میرے پاس سے گزریں، اس وقت حضور اقدسﷺ میرے پاس تشریف رکھتے تھے، میں نے عرض کیا کہ یہ حولاء بنت تویت ہیں، لوگوں کا بیان ہے کہ یہ رات کو نہیں سوتی ہیں (اورنماز ہی پڑھتی رہتی ہیں) آپ نے (ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے) فرمایا۔ ’’رات بھر نہیں سوتی‘‘ (پھر فرمایا) کہ اس قدر عمل کرو جتنی طاقت ہو، پس اللہ تعالیٰ کی قسم اللہ تعالیٰ بددلی والا معاملہ نہیں فرماتے (اپنے فضل و ثواب کو نہیں روکتے) جب تک تم بددل نہ ہوجاؤ۔ (صحیح مسلم:۱/ ۲۶۶) تشریح: فرض عبادات کا اہتمام تو بہرحال لازم ہے، اور واجب و سنن موکدہ کی پابندی بھی ضروری ہے۔ اب رہیں نفلی عبادتیں تو ان کی ادائیگی بھی بہت فائدہ مند ہے، ان سے فرائض کی کمی بھی پوری کی جائے گی اور ثواب بھی ان کا بہت ہے۔ جیسا کہ روایات حدیث میں مذکور ہے، لیکن نوافل کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی کثرت اس قدر ٹھیک ہے کہ اس کی وجہ سے فرائض میں فرق نہ آئے اوربندوں کی حق تلفی نہ ہوتی ہو، اور نیند کے غلبہ کی وجہ سے بددلی کی حالت میں ادائیگی نہ ہو۔ اوپر جو حدیثیں مذکور ہوئی ہیں جہاں صحابی خواتینؓ کے تہجد پڑھنے کے ذوق کا پتہ چلا وہاں حضور اقدسﷺ کی یہ نصیحت بھی سامنے آگئی کہ تہجد پڑھنے کے لیے نفس کے ساتھ سختی کرنا درست نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ جب تک طبیعت میں نشاط، خوشی اوربشاشت رہے اس وقت تک تہجد میں لگے رہو، نفس کے ساتھ