تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ: وَالنَّھْیُ عَنْ اِتِّخَاذِا السِّرَاجِ لِمَا فِیْہِ مِنْ تَضِیْعِ الْمَالِ لِاَنَّہٗ لاََ نَفْعَ لاَِحَدٍ مِّنَ السِّرَاجِ وَلاَْنـَّھَا مِنْ اٰثَارِ جَھَنَّمَ وَلاََِنـَّھَا لْلاِِحْتِرَازِ عَنْ تَعْظِیْمِ الْقَبُوْرِ کَالنَّھِیْ عَنْ اِتَّخَاذُ الْقَبُوْرِ مَسَاجِدْ۔ (مرقات شرح مشکوۃ ص ۲۱۹ ج ۲) ’’قبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اس میں مال کا ضائع کرنا ہے جواسراف (یعنی فضول خرچی ہے) جس کی وجہ یہ ہے کہ چراغ سے کسی (میت) کو کوئی نفع نہیں اور ممانعت کی ایک وجہ یہ ہے کہ آگ دوزخ کے آثار میں سے ہے۔ (لہٰذا مومن کی قبر پر آگ نہ ہونی چاہیے) اور چراغ جلانا تعظیم قبور کے لیے بھی ہوتا ہے اس وجہ سے بھی ممنوع ہے جیسا کہ سجدہ گاہ بنانا ممنوع ہے۔‘‘ صاحب مرقات نے یہ جو فرمایا کہ قبر پر چراغ جلانے میں کسی میت کو کچھ نفع نہیں ہے، اس کی تشریح یہ ہے کہ اگر میت عذاب میں ہے اور اس کی قبر میں تاریکی ہے تو باہر کے اجالے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا، اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام میں ہے تو اس کی قبر حسب فرمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود منور ہے اور باہرکی روشنی کی اسے حاجت نہیں، اور معلوم ہوا کہ عموماً جن حضرات کو بزرگ سمجھا جاتا ہے انہی کی قبروں پر چراغ جلائے جاتے ہیں، یہ عقل و نقل کے خلاف نہیں تو اور کیا ہے؟ درحقیقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جس خطرہ کی پیش بندی کے لیے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے اور وہاں چراغ جلانے سے روکا تھا وہ خطرہ آج واقعہ بن گیا ہے، امت نے ممانعت پر عمل نہیں کیا اور مصیبت بالائے مصیبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف اور صریح ممانعت کے باوجود جس کی روایات صحیح بخاری و صحیح مسلم اور صحاح کی دیگر کتابوں میں موجود ہیں، قبر پر چراغ جلانے اور وہاں سجدہ گاہ بنانے کو ثواب بتاتے ہیں اور جو شخص اسے شرک بتاتا ہے الٹا اسے بے دین بتاتے ہیں۔ موطا امام مالک ؒ میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ پاک سے دعا کی: اَللّٰھُمَّ لاََ تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُّعَبْدُ اشْتَدَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِھِمْ مَسَاجِدَ۔ (اخرجہ مالک عن زید بن اسلم عن عطاء بن یسار مرسلا وراجع مایتعلق بالحدیث اوجز المسالک ص ۴۰۹ ج۲) ’’اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنائیو، جس کی پوجا کی جائے، ان لوگوں پر اللہ کا سخت غصہ ہو، جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔ ‘‘ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لاََ تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قَبُوْرًا وَّلاََ تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَّصَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلَٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ۔ ’’یعنی اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ (قبروں کی طرح گھروں کو ذکر اللہ سے خالی مت رکھو بلکہ نفل نماز، ذکر، وظیفہ گھروں میں پڑھا کرو)اور میری قبر کو عیدنہ بناؤ اور مجھ پر درود بھیجو کیوں کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچادیا جاتا ہے تم جہاں