تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عورتوں کو پردہ میں دیکھنا گوارہ کرتے ہیں۔ جو لوگ بے پردگی کو رواج دینے کی کوشش میں ہیں اور اپنی بہو بیٹیوں کو یورپین لیڈیوں کی طرح بے حیا اور بے شرم بناچکے ہیں اور ان کے عریاں لباس سے اپنے نفوس کو تسکین دینے کا راستہ نکال چکے ہیں۔ ان میں بہت سے تو ایسے ہیں جو محض نام کے مسلمان ہیں اور حیا و شرم کے ساتھ ایمان کی دولت بھی کھوچکے ہیں، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی درجے میں اسلام سے چپکے ہوئے ہیں، مگر ان کو تقلید یورپ کا مزاج او ربے حیائی اور بے شرمی کی طبیعت آہستہ آہستہ اسلام سے ہٹاتی جارہی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں، ایک اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے، یہ ارشاد بالکل حق ہے۔ تجربہ اس کی گواہی دے رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَاَمِ النَّبُوَّۃِ الاُْوْلٰی اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ۔ (بخاری) ’’یعنی انبیاء سابقین علیہم السلام کی جو باتیں نقل ہوتی چلی آرہی ہیں، ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب تم میں شرم نہ رہے تو جو چاہے کر۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام شرم و حیا کی تعلیم دیتے آئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قومیں اللہ کے بعض پیغمبروں سے اپنا رشتہ جوڑنے کی دعوے دار ہیں اور ساتھ ہی بے شرم او ربے حیا بھی ہیں وہ اپنے دعوے میں جھوٹی ہیں اور اپنے کفر و شرک او ربے حیائی کی زندگی کے باعث ان نبیوں کی ذات گرامی کے لیے عار ہیں، جن سے اپنی نسبت قائم کرتی ہیں، کوئی بے شرم و بے حیا کسی بھی نبی کے راستہ پر نہیں ہوسکتا۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: اَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ اَلْحَیَائُ وَالتَّعَطَّرُ وَالسِّوَاکُ وَالنِّکَاحُ۔ (ترمذی شریف) ’’یعنی پیغمبروں کے طرز زندگی میں چار چیزیں (بہت اہم ہیں) شرم کرنا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا، نکاح کرنا۔‘‘ اللہ کے محبوب ترین بندے اس کے پیغمبر ہیں، انھوں نے حیا اور شرم کی زندگی کو اختیار کیا اور اپنی اپنی امت کو اپنے اپنے زمانہ میں شرم و حیا کے اختیار کرنے پر آمادہ کیا، جو لوگ بے شرم ہیں، اللہ تعالیٰ سے دور ہیں، اس کے پیغمبر سے دور ہیں، البتہ کفار فجار سے قریب ہیں، ابلیس لعین کے دوست ہیں۔ یہ نام نہاد ترقی کا زمانہ ہے، اس میں عفت، عصمت، شرم و حیا عیب بن کر رہ گئی ہے، یورپ والوں کی تقلید میں نام نہاد مسلمان بھی اس کی رو میں بہ رہے ہیں۔ عورت اگر پردہ کرے تو اسے سوسائٹی میں شریف نہیں سمجھاجاتا۔ اگر بے حیا بنے، چہرہ کھول کر نکلے، ٹیڈی لباس میں اعضائے بدن کو ظاہر کرتی ہوئی بازاروں میں گھومے، مارکیٹ میں سودا خریدے، سیکڑوں مردوں کے سامنے پارکوں میں بے حجاب ہوکر تفریح کرے تو اسے شریف سمجھا جاتا ہے، استغفراللہ۔ کیسی الٹی ترقی