تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ البتہ انسان کا باطن (پیٹ وغیرہ) پیپ سے بھر جائے، جس سے اس کے معدہ وغیرہ کو خراب کرکے رکھ دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا باطن شعروں سے بھرجائے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۴۰۹، از بخاری و مسلم) تشریح: اس حدیث میں شعر پڑھنے کی مذمت فرمائی ہے اور توضیح اس کی یہ ہے کہ اشعار معنی کے اعتبار سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں، برے شعر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، جن شعروں میں جھوٹ ہو، جھوٹی تعریف ہو، کسی کی مذمت یا غیبت ہو، جہالت و جاہلیت کی حمایت ہو، کفر اور شرک کے مضامین ہوں، ایسے اشعار کہنے، پڑھنے، لکھنے، سننے میں گناہ ہوناظاہر ہے اور عموماً ایسے اشعار سے نفس کو مزہ آتا ہے، پھر ان کے ساتھ ساز سارنگی، باجا گاجا بھی ہو تو گناہ دو گنا اور دوہرا ہوجاتا ہے، اور جو اشعار اچھے ہوں، ان کو پڑھنا، زبان پر لانا درست ہے، لیکن ساز، سارنگی او رباجے گاجے اورہارمونیم، الغوزہ اور ڈھول کے ساتھ ان کا پڑھنا بھی گناہ ہے، اور یہ چیزیں اگر نہ ہوں تب بھی عورتوں کو بلند آواز سے پڑھنا درست نہیں ہے۔ ہاں تنہائی میں کوئی شعر پڑھ لے تو درست ہے، نامحرموں کو نرم لہجہ والی یا گانے کی طرز والی آواز سنانا ممنوع ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: فَلاََ تَخْضَعْنَ بَالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلاًَ مَّعْرُوْفًا۔ ’’یعنی تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے دل میں خرابی ہے۔ ‘‘ یہ جو عورتوں میں رواج ہے کہ منگنی یا بیاہ، شادی یا بچہ کی پیدائش پر گاتی ہیں، جس میں بجانے کی چیزیں بھی استعمال ہوتی ہیں، اور نامحرم کو آواز بھی جاتی ہے، یہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے، سخت افسوس کی بات ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں موسیقی کے لیے مستقل وقت دیا جاتا ہے اور گانا بجانا سیکھنے سکھانے بلکہ ناچنا سکھانے کے لیے مستقل پیریڈ رکھے جاتے ہیں، پھر یہ لڑکیاں یہ سب کچھ سیکھ کر اسٹیج پر آتی ہیں، مجمعوں اور محفلوں میں ڈانس اور موسیقی کا مظاہرہ کرتی ہیں، اس بے ہودگی اور بدکرداری کو فنون لطیفہ کا نام دیا جاتا ہے اور ثقافت سے تعبیر کیا جاتا ہے، اللہ اکبر، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتیں اور یہ جاہلیت کی حرکتیں، پھر اوپر سے شریف ہونے کا دعویٰ اہل دین اور اہل فہم غور کرلیں کہ ان حالات میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا کیا منہ ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایاکہ میرے رب نے مجھے گاجے باجے کی چیزیں مٹانے کا حکم دیا ہے، اور نالائق امتی گانے بجانے کو اور آلات موسیقی کو زندگی کا جزو بنالیں، یہ کہاں تک زیب دیتا ہے، اے ایمان کے دعوے دارو غور کرو۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا