تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سراغ مت لگایا کرو اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتاہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ سو اس کو تم ناگوارسمجھتے ہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ غور فرمائیں، قرآن مجید کی اس آیت میں غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیاہے، پس جب کسی کی غیبت کی تو یہ ایسا ہی ہے جیسے موت کے بعد اس کا گوشت کھایا، مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے طبعاً نفرت ہے، ایسا ہی اس کو غیبت سے سخت نفرت ہونی چاہیے۔ احیاء العلوم میں حضرت ابوہریرہؓ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جس نے (غیبت کرکے) دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا آخرت میں اس کا (جسم والا گوشت) غیبت کرنے والے کے قریب کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کو کھالے، اس حالت میں کہ وہ مردہ ہے، جیسا کہ تو نے اس کی زندگی کی حالت میں گوشت کھایا تھا، اس کے بعد وہ اس گوشت کو کھائے گا۔۔۔۔۔ اور چیختا جائے گا اور اپنا منہ بگاڑتا جائے گا۔ (کذافی تفسیر ابن کثیر عن ابی یغلی وقال غریب جدا وذکرہ الغزالی فی الاحیاء ایضا قال العراقی اخرجہ ابن مردوبہ فی التفسیر مرفوعا وموقوفا وفیہ محمد بن اسحاق رواہ بالعنعنہ ۱ھ۲۲) حضرت عبیدؓ سے روایت ہے کہ دو عورتوں نے روزہ رکھا تھا، ایک شخص آیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں دو عورتیں ہیں جنھوں نے روزہ رکھاہے، اور قریب ہے کہ وہ پیاس سے مرجائیں، یہ سن کر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ وہ شخص دوپہر کے وقت پھر آیا او رعرض کیا یا نبی اللہ! اللہ کی قسم وہ مرچکی ہیں یا مرنے کے قریب ہیں۔ آپ نے فرمایا ان دونوں کو بلائو، چناں چہ دونوں حاضر ہوگئیں، اور ایک پیالہ لایا گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک عورت سے فرمایا، قے کر۔ چناں چہ اس نے قے کی، تو پیپ اور خون اور گوشت کے ٹکڑے نکلے، جس سے آدھا پیالہ بھر گیا، پھر دوسری عورت کو قے کرنے کا حکم فرمایا، چناں چہ اس نے بھی پیپ اور خون اور ادھ کچے گوشت وغیرہ کی قے کی، یہاں تک کہ پورا پیالہ بھر گیا، آپ نے فرمایا کہ ان دونوں نے حلال چیزوں کو ترک کرکے روزہ رکھ لیا، اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام فرمائی تھیں ان کے چھوڑنے کا روزہ نہ رکھا (بلکہ اس میں مشغول رہیں) ان میں سے ایک دوسری کے پاس بیٹھی اور دونوں لوگوں کے گوشت کھاتی رہیں (یعنی غیبت کرتی رہیں) (قال الیشھمی فی مجمع الزائد ص ۱۷۱ج۳ رواہ احمد وابو یعلی نحوہ فیہ رجل لم یسم) حضرت ماعزا سلمیؓ ایک صحابی تھے، ان سے ایک مرتبہ گناہ (یعنی زنا) صادر ہوگیا، انھوں نے بارگاہ رسالت میں آکر چار مرتبہ اپنے گناہ کا اقرار کیا، اور ہر بار آپ ان کی طرف سے بے توجہی برتتے رہے، لیکن وہ برابر اقرار کرتے رہے، پھر آپ نے فرمایا کہ اس بات کے کہنے سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ انھوں نے عرض کیا۔