تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے۔ شریعت اسلامیہ نے میل محبت اور الفت پر بہت زور دیا ہے، بغض و عداوت، نفرت اور دوسرے کی تحقیر سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، انسان، انسان ہے، کبھی طبیعت میں میل آجاتاہے اور بشری تقاضوں کی بناء پر ایسا ہوجانا بعید نہیں ہے۔ لیکن طبیعت کے تقاضہ کی شریعت نے ایک حد رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ صرف تین روز قطع تعلق کی گنجائش ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: لاََ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلاََثٍ فَمَنْ ھَجَرَ فَوْقَ ثَلٰثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ۔ (مشکوٰۃ) ’’کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ اپنے بھائی (مسلمان) سے تین دن سے زیادہ تعلقات توڑے رکھے۔ پس جس نے تین دن سے زیاہ تعلق توڑے رکھا اور اس اثناء میں مرگیا تو دوزخ میں جائے گا۔ ‘‘ سنن ابودائود میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے تعلق توڑے رکھا تو وہ ایساہے کہ جیسے اس کا خون بہادیا۔ (مشکوٰۃ) ایک دوسرے سے منہ پھیرنے کے متعلق ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ: لاََ یَحِلُ لِلرَّجُلِ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلٰثِ لَیَالٍ یَلْتَقِیَانِ فَیَعْرِضُ ھٰذَا وَیُعْرِضُ ھٰذَا وَخَیْرُھُمَا الَّذِیْ یَبْدَأُ بِالسَّلاََمِ۔ ’’کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین رات سے زیادہ تعلقات چھوڑے رکھے (اور) ملاقات کا اتفاق پڑجائے تویہ ادھر کو منہ پھیر لے اور وہ ادھر کو منہ پھیرلے۔ (پھر فرمایا) دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرکے بول چال کی ابتداء کردے۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور ایساکرنے میں نفس کی بات کو ٹھکرا کر خدائے پاک کے حکم کو سامنے رکھ کر صلح کی طرف بڑھنے میں پیش قدمی کرے اور دل میں یہ نہ سوچے کہ میں کیوں پہل کروں، میری حیثیت کم نہیں ہے، اس طرح سوچنا تکبرکی بات ہے، انسان کو ہر حال میں تواضع لاز م ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ تین دن سے زیادہ مسلمان سے تعلق توڑے رکھے، تین دن گزر جانے کے بعد خود ملاقات کرے اور سلام کرے، اگر اس نے سلام کا جواب دے دیا تو دونوں کو اجر ملا، ورنہ سلام کرنے والا ترک تعلق کے گناہ سے بچ گیا۔ (ابودائود) مسئلہ: تین بار سلام کرے، اگر وہ تینوں بار جواب نہ دے تو وہی گناہ گاررہے گا۔ (بخاری) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہر ہفتہ میں دوبار (اللہ کی بارگاہ میں) لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں، ایک پیر کے دن، دوسرے جمعرات کے دن، سو ہر مومن بندہ کی بخشش کردی جاتی ہے، مگر ایسے بندہ کی بخشش نہیں ہوتی جس کی اپنے بھائی سے دشمنی ہو، ارشاد ہوتا ہے کہ (ابھی) دونوں کو چھوڑو یہاں تک کہ (اپنی دشمنی