تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۷۳) وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لاََ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ عَلٰی قَوْمٍ فِیْھِمْ قَاطِعُ رَحِمٍ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان) ’’حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس قوم پر رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں کوئی شخص قطع رحمی کرنے والا موجود ہو۔ ‘‘فائدہ : جس طرح صلہ رحمی سے اللہ پاک کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں، اسی طرح قطع رحمی کی وجہ سے اللہ پاک جل شانہٗ اپنی رحمت روک لیتے ہیں اور یہی نہیں کہ صرف قطع رحمی کرنے والے سے بلکہ اس کی پوری قوم سے رحمت روک لی جاتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص قطع رحمی کرتا ہے تو دوسرے لوگ اس کو صلہ رحمی پر آمادہ نہیں کرتے، بلکہ خودبھی اس کے جواب میں قطع رحمی کا برتائو کرنے لگتے ہیں۔ (۱۷۴) وَعَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّحِمُ شَبْحَنَۃٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ فَقَالَ اللّٰہُ مِنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہٗ۔(رواہ البخاری کذافی المشکوۃ) ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لفظ رحم لیا گیا لفظ رحمن سے (جو اللہ جل شانہٗ کا نام ہے) پس اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ(اے رحم) جس نے تجھے جوڑے رکھا (یعنی تیرے حقوق ادا کیے) میں اس کو رحمت کے ساتھ اپنے سے (ملالوں گا) اور جس نے تجھے کاٹ دیا میں اس کو (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا۔ (یعنی رحمت کے دائرے سے الگ کردوں گا)۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۴۱۹، از بخاری)فائدہ : ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ لایدخل الجنۃ قاطع رحم یعنی قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (بخاری) معلوم ہوا کہ قطع رحمی کی سزا دنیا و آخرت دونوں میں بھگتنی پڑتی ہے، بہت سے خاندانوں میں برسہا برس گزر جاتے ہیں، اور آپس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے، آپس میں قتل و خون تک ہوجاتے ہیں، اور مقدمہ بازی تو روزانہ کا مشغلہ بن جاتا ہے۔ بھائی بھائی کچہری میں دشمن بنے کھڑے ہوتے ہیں، کہیں چچا بھتیجے دست و گریبان ہورہے ہیں، کہیں بھائی بھائی میں نفاق ہے۔ ایک نے سکنائی جائیداد دبالی ہے، دوسرے نے زرعی زمین پر قبضہ کرلیا ہے، لڑ رہے ہیں، مررہے ہیں، نہ سلام ہے نہ کلام ہے، آمنا سامنا ہوتاہے تو ایک دوسرے سے منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ بھلا ان چیزوں کا اسلام میں کہاں گزرہے؟ اگر صلہ رحمی کے اصول پر چلیں تو خاندانوں کی ہر لڑائی فوراً ختم ہوجائے جو لوگ قطع رحمی کو اپنالیتے ہیں، ان کی آنے والی نسلوں کو قطع رحمی کے نتائج برسہا برس بھگتنے پڑتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اَعْمَالَنَا وَاَحْوَالَنَا وَانْجَحْ اٰمَالَنَا۔