تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے اور بڑوں کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ چھوٹوں میں اولاد اورکم عمر کے بہن بھائی، دوسرے کم عمر رشتہ دار اور غیر رشتہ دار، نیزیہ وہ لوگ جو ملازمت میں اپنے ماتحت ہیں اور حاکموں کی ساری رعیت اور محکوم اور ہر وہ شخص جو کسی بھی اعتبار سے چھوٹا ہو سب داخل ہے، ان سب لوگوں کے ساتھ رحمت اور شفقت اور مہربانی کابرتائو کیا جائے، اسی طرح بڑوں کے عموم میں ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی بھی اعتبار سے بڑا ہو، ماں باپ اور تمام رشتہ دار جو عمر میں بڑے ہوں اور دوسرے وہ سب لوگ جو عمر میں یا عہدہ میں بڑے ہوں، ان سب کی تعظیم اور توقیر اور اکرام و احترام ضروری ہے، اکرام و احترام کا مطلب اتنا ہی سا نہیں ہے کہ اچھے ا لقاب کے ساتھ نام لے لے، بلکہ جانی و مالی خدمت کرنا، دکھ تکلیف میں کام آنا، آرام پہنچانا اورکسی بھی طرح سے کوئی ایذا نہ پہنچانا۔ یہ سب اکرام میں شامل ہے۔ بہت سے لوگ ظاہر میں توبڑوں کا بہت احترام و ادب کرتے ہیں لیکن موقع لگ جائے توکچا کھانے کو تیار رہتے ہیں، یہ کوئی اکرام نہیں ہے۔ بوڑھوں کا اکرام کرنے کے بارے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس کسی جوان نے کسی بوڑھے کا اکرام اس کے بڑھاپے کی وجہ سے کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت کسی ایسے آدمی کو مقرر فرمائے گا جو اس کا اکرام کرے گا۔ (ترمذی) چھوٹے بچے بھی رحمت کے مستحق ہیں، اپنے بچے ہوں یاکسی دوسرے کے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے بچوں سے بہت شفقت کا برتائوفرماتے تھے، بچوں کو گود میں بھی لیتے، پیار بھی کرتے اور چومتے بھی تھے، ایک صاحب دیہات کے رہنے والے حاضر خدمت ہوئے اور (تعجب سے) کہنے لگے، کیا آپ حضرات بچوں کو چومتے ہیں ؟ ہم تو نہیں چومتے۔ اس کی بات سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میں تیرے لیے کیا کرسکتا ہوں، اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت نکال دی ہے۔ (بخاری) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (لوگوں کے) بچے لائے جاتے تھے، آپ ان کے لیے برکت کی دعا دیتے تھے اور ا ن کی تحنیک فرماتے تھے (یعنی اپنے منہ میں کھجور چبا کر بچے کے منہ میں ڈال دیتے تھے پھر تالو سے مل دیتے تھے) (مسلم) ایک مرتبہ حضرت ام قیسؓ اپنے ایک دودھ پیتے بچے کو آپ کی خدمت میں لے آئیں۔ آپ نے اس کو اپنی گود میں بٹھالیا، بچہ نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، آپ نے خود ہی اس کو پاک فرمایا۔ (مشکوٰۃ) ایک مرتبہ حضرت انسؓ کا چھوٹا بھائی آپ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس بچہ سے فرمایا کہ اے ابوعمیر تمہاری وہ چڑیا کیا ہوئی؟ اس بچے کے پاس ایک چڑیا تھی جس سے وہ کھیلتا تھا وہ مرگئی، تو آپ نے ایسا فرمایا۔ (بخاری و مسلم)