تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(رواہ البخاري ومسلم) حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا جو کوئی ہمارے اس دین میں وہ کام جاری کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ کام مردود ہے۔ تشریح: دین اسلام ایک صاف سچا کامل و مکمل دین ہے، رہتی دنیا تک اس کا ہر حکم محفوظ ہے، کیسے ہی احوال بدل جائیں اور کیسے ہی انقلابات آجائیں لیکن اسلام اپنی جگہ اٹل ہے، اس کی کسی چیز میں بدلنے کی گنجائش نہیں۔ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے قوانین اسلام نے ایسے وضع کیے ہیں کہ ان سے بہتر کوئی پیش نہیں کرسکتا، اور نہ آج تک کوئی پیش کرسکا۔ اسلام کامل اس قدر ہے کہ اسلام کے نہ نظام حکومت میں تبدیلی کی گنجائش ہے نہ اس کے نظام اقتصادیات میں کسی اضافہ یا کمی کی ضرورت ہے، نہ اس کے نظام معاشرت میں کسی تبدیلی کا موقع ہے نہ اس کے وضع کردہ طریق معاملات کے متعلق کسی ترمیم کی حاجت ہے۔ غرضیکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام جاری و ساری ہے اور اس میں کہیں بھی کسی جگہ تبدیلی و ترمیم کی ضرورت نہیں اور کیوں کر تبدیلی کی ضرورت ہوسکتی ہے؟ جب کہ اللہ جل جلالہ {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ}1 (1 ٭٭ کا اعلان فرماچکے ہیں۔ پھر اسلام کے احکامات میں کوئی الجھاؤ اور پیچیدگی نہیں ہے جس کی وجہ سے سمجھنے یا عمل کرنے میں دقت پیش آئے، بلکہ اس کا ہر فیصلہ دو ٹوک اور ہر حکم صاف اور صریح اور ہر قانون ظاہر اور بین ہے۔ الترغیب والترہیب میں ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: لَقَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلٰی مِثْلِ الْبِیْضَآئِ لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا لَا یَزْیْغُ عَنْھَا إِلَّا ھَالِکٌ۔ ’’البتہ میں نے تم کو ایسے صاف راستہ پر چھوڑا ہے جس کا رات اور دن برابر ہے، اس سے وہی ہٹے گا جو ہلاک ہوگا (یعنی اپنی جان کو دوزخ میں ڈالنے کو تیار ہوگا)۔‘‘ جب کہ دین اسلام کامل و مکمل اور صاف و صریح دین ہے، جس میں ذرا سی بھی ترمیم اور اضافہ کی گنجائش نہیں ہے۔ تو اب اس میں کسی بدعت کا نکالنا اور اپنی طرف سے کسی ایسے کام کو دین میں داخل کرنا جو دین میں نہیں ہے سراسر گمراہی ہوگی اور دین میں اپنی طرف سے پچر لگانا ہوگا۔ امام مالک ؒ نے فرمایا: مَنْ أَتٰی بِدْعَۃٌ ظَنَّ أَنَّ مُحَمَّدًا أَخْطَأَ الرِّسَالَۃَ۔یعنی جس نے بدعت کا کام کیا گویا اس نے یہ سمجھا کہ محمد ﷺ نے اللہ کا حکم پہنچانے میں غلطی کی ہے، اور پورا دین نہیں پہنچایا اور احکام ٹھیک ٹھیک نہیں بتلائے ہیں، لہٰذا میں اس میں اپنی طرف سے کوئی عمل جاری کرکے ناقص دین کی تکمیل کرتا ہوں (اللہ کی پناہ) بدعت والے یوں تو ہرگز نہیں کہتے کہ ہم بدعت کررہے ہیں بلکہ اپنے اعمال کو عین دین سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کو قرآن و حدیث میں دیکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی، اور حق و باطل کی تمیز نہیں رہتی، چوں کہ معصیت اور سراسر نافرمانی کو اہل بدعت نیکی سمجھتے ہیں، اس لیے بدعت سے توبہ بھی نہیں کرتے نہ ان کی انھیں توفیق ہوتی ہے۔ بدعت کے علاوہ کوئی کتناہی بڑا گناہ ہو، چوں کہ انسان اسے گناہ سمجھتا ہے اس