تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی خواتین خصوصاً حضور اقدسﷺ کی پاک بیویوں کو عبادت کا خاص ذوق تھا، مقابلہ کا اگر جذبہ تھا تو دین میں آگے بڑھنے کا تھا، دنیا کی چیزوں کی رغبت نہ تھی، اور اسباب دنیا جمع کرنے کا ان کے یہاں نہ اہتمام تھا، نہ اس میں مقابلہ کرنے کا تصور تھا، حضور اقدسﷺ نے اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کی بیویاں بھی اس کے لیے تیار ہوگئیں اور اپنے اپنے خیمے اعتکاف کرنے کے لیے لگوادیئے، درحقیقت اگر کسی دینی کام میں نیت صاف ہو یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور تصور صرف یہ ہو کہ مجھے دوسروں سے زیادہ ثواب مل جائے، کسی فرد کو گرانا یا اپنے نفس کو پھلانا مقصود نہ ہو تو مقابلہ میں آگے بڑھ جانے کا جذبہ نہ صرف درست ہے بلکہ محبوب ومستحسن ہے۔ اگر مقصود یہ ہے کہ فلاں کو نیچا دکھادوں یا اپنی تعریف کرالوں یا نفس کو خوش کرنا مقصود ہو کہ نفس اپنی عبادت اور دینی محنت کرنے کے باعث پھولا نہ سماتا ہو اور دوسروں کی تحقیر اور اپنی بڑائی کے تصور میں مبتلا ہو تو شرعاً یہ بات بہت بری ہے اور گناہ ہے، اور اس طرح کی نیت کرنے سے عبادت کا ثواب تو کیا ملتا بلکہ اس عبادت کے وبال بننے کا خطرہ ہوجاتا ہے، عبادت گزاروں کو ہر وقت اپنے جذبات کا احتساب کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ کی رضا مقصود ہے یاکوئی اور مقصد ہے؟ کہیں دوسروں کو دکھانا یا اپنے نفس کو بڑھانا اور غیروں کو حقیر بنانا تو مقصود نہیں، کہیں یہ جذبہ تو نہیں کہ اپنی تعریف ہو اور نفس عبادت کی کثرت پر مغرور ہوجائے، اگر اپنے اعمال کا اس طرح جائزہ نہ لیں تو نفس و شیطان عبادت گزار کا ناس کرکے رکھ دیتے ہیں۔ جب حضور اقدسﷺ نے اعتکاف کا ارادہ فرمایا تو حضرت عائشہؓ نے اعتکاف کے لیے خیمہ لگوادیا، دوسری بیویوں نے بھی یہی کیا، آں حضرتﷺ نے یہ منظر دیکھا تو گویا ایسا1 (1 قال الحافظ فی الفتح وکانہ ﷺ خشی ان یکون الحامل لھن علی ذلک المباہاۃ والتنافس الناس شیئ من الغیرۃ حرصا علی القرب منہ خاصۃ فیخرج الاعتکاف عن موضعہ الخ وقال ایضا وفیہ شوم الغیرۃ لانہا ناشئتہ عن الحسد المفضی الی ترک الافضل لاجلہ وفیہ ترک الافضل اذا کان فیہ مصلحہ وان من خشی علی عملہ الریاء جازلہ ترکہ وقطعہ وفیہ ان الاعتکاف لایجب بالنیۃ) محسوس فرمایا کہ ان کے آپس میں مقابلہ کی جو شان ہے کہیں اس میں نفس کا حصہ تو نہیں ہے؟ لہٰذا آپ نے سوال کے انداز میں تنبیہ فرمائی اور فرمایا کیا انھوں نے نیکی کا ارادہ کیا ہے؟ (یا اس کے سوا کچھ اور مقصود ہے؟) پھر ان کو مزید تنبیہ فرمانے کے لیے خود اعتکاف کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا اور اس کے بجائے عید کے مہینہ میں اعتکاف فرمایا۔ آپ کے ارادہ بدل دینے سے بیویوں کے ارادے اور جذبات ٹھنڈے پڑگئے اور اعتکاف کرنے میں حصہ نفس کا اگر شائبہ تھا تو وہ فنا ہوگیا، آپ نے عملی طور پر بھی اصلاح فرمادی، فصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ بقدر کمالہٖ و جمالہٖ۔ ہم میں سے ہر شخص کو اپنے اپنے اعمال کا اور نیتوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ واللہ الموافق