خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
المصرف وہو من لہ أدنی شيء دون النصاب، فیجوز الدفع لہ ولو کان صحیحاً مکتسبا۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۲۰ دار إحیاء التراث بیروت، الدر المختار علی الشامي ۳؍۲۸۳ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۳؍۱۴۱۱ھغریب آدمی کو علاج کے لئے زکوٰۃ کی رقم دینا؟ سوال(۱۷۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: (۱) زید ایک غریب شخص ہے، ہارٹ کا مریض ہے، جس کے علاج پر تقریباً ۶۵؍ہزار روپیہ صرف ہوگا، اس کو کسی نے بقدر نصاب سے زائد رقم مثلاً ۲۵؍ہزار روپیہ برائے علاج دئے جو اس کے پاس ابھی بعینہٖ موجود ہیں، کیا زید کو مزید رقم زکوٰۃ کی دی جاسکتی ہے، یا نہیں؟ (۲) زید کے لئے لوگوں نے ایک شخص کے پاس زکوٰۃ کی ۲۵؍ہزار روپیہ جمع کردئے، کیا اس صورت میں اس کو برائے علاج زید کو مزید رقم زکوٰۃ کی دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ (۳) امین کے پاس جمع شدہ رقم زید تک پہنچنے سے پہلے اگر زید کا انتقال ہوجائے تو اس جمع شدہ رقم کا کیا کرنا چاہئے؟ آیا زید کے ورثہ کو دی جائے گی یا زکوٰۃ دہندگان کو واپس کی جائے گی؟ (۴) زید ڈاکٹر ہے، اس کے پاس زکوٰۃ کی رقم ہے، اگر کوئی محتاج مریض آتا ہے تو اس کو دوائی اپنے پاس سے مفت دیتا ہے اور اس کو زکوٰۃ کی مد میں شمار کرتا ہے، کیا زید کا یہ فعل صحیح ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) صورتِ مسئولہ میں جب کہ زید کے پاس ۲۵؍ہزار روپیہ موجود ہیں تو جب تک اس کو علاج میں خرچ نہ کرلے اس وقت تک زید کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے، جواز کی شکل یہ ہے کہ پہلے کسی سے علاج کے لئے مکمل رقم قرض لے لے، تو ایسی صورت میں قرض کی ادائیگی کے لئے زید کو زکوٰۃ دینا درست ہوجائے گا۔