خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
جس مدرسہ میں مستحقِ زکوٰۃ طلبہ نہ ہوں اس میں زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۵۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جس مدرسہ میں دارالاقامہ نہ ہو اور بچے تعلیم حاصل کرکے گھر چلے جاتے ہوں، تو کیا ایسے مدرسہ کے لئے زکوٰۃ، صدقات اور عطیات وصول کرکے وہاں خرچ کرنا،اور تعمیری کام کرانا جائز ہے؟ ایسے ادارہ میں تملیک کی کیا صورت ہوگی؟ جب کہ وہاں مستحقین طلبہ موجود نہیں ہے؟ شرعی حکم لکھ کر ممنون فرمائیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ مدرسہ میں تعمیرات کے لئے صرف نفلی عطایا وصول کئے جائیں، اس مقصد کے لئے زکوٰۃ وصدقات وصول کرنا جائز نہیں، اور بلاضرورت تملیک کی بھی اجازت نہیں؛ کیوں کہ تملیک کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت ہوتی ہے، عام حالات میں نہیں۔ بریں بنا اگر اہل مدرسہ تعمیر وغیرہ غیرمصارف میں زکوٰۃ کا روپیہ لگائیں گے، تو زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اور اہل مدرسہ اس رقم کے ضامن ہوں گے۔ (کفایت المفتی ۴؍۲۸۵-۲۸۶، فتاویٰ رحیمیہ ۲؍۳۶۸) ولایجوز أن یبني بالزکاۃ المسجد، وکذا القناطیر والسقایات، وإصلاح الطرقات وکری الأنہار، والحج والجہاد، وکل مالا تملیک فیہ۔ ( الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۸دار الفکر بیروت) لا یصرف إلی بناء نحو مسجد وتحتہ في الشامي قولہ: نحو مسجد کبناء القناطیر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج وکل مالا تملیک فیہ۔ (در مختارمع الشامي ۳؍۲۹۱ زکریا) فذہب علمائنا رحمہم اللّٰہ إلی أن کل حیلۃ یحتال بہا الرجل لإبطال حق الغیر أو لإبطال شبہۃ فیہ أو لتمویہٍ باطلٍ فہي مکروہۃ، وفي العیون: وفي