خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
اسکول کے مسلم اور غیر مسلم بچوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا اور اساتذہ کی تنخواہ دینا؟ سوال(۲۷۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک اسکول میں درجہ اطفال سے لے کر درجہ آٹھ تک تعلیم ہوتی ہے؛ لیکن درجہ پنجم تک ملازمین کی تنخواہ چندہ کی رقم سے ادا کی جاتی ہے، تو ایسی صورت میں غیر مسلموں کو تعلیم دینا اس اسکول میں صحیح ہے یا نہیں؟ نیز پہلے غیرمسلموں کو اس مکتب میں تعلیم نہیں دی جاتی تھی، حالاںکہ چندہ کی رقم فطرہ، چرمِ قربانی، زکوٰۃ، عطیات وغیرہ ہوتا ہے، تو کیا ایسی رقمیں مسلم بچوں کے ساتھ غیر مسلم طلبہ پر بھی خرچ کی جاسکتی ہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ اسکول کے لئے زکوٰۃ، صدقاتِ واجبہ کی رقومات وصول کرنا اور پھر ان کو ماسٹروں اور ملازمین کی تنخواہوں میں اور اسکول کے غیر مسلم بچوں پر صرف کرنا جائز نہیں ہے، ان جگہوں پر صرف کرنے سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن سعید بن جبیر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تصدقوا إلاَّ علی أہل دینکم۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۶؍۵۱۴ رقم: ۱۰۴۹۹) مصرف الزکاۃ ہو فقیر … وقیل: طلبۃ العلم … ویشترط أن یکون الصرف تملیکًا لا إباحۃ۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۲۸۹-۲۹۱ زکریا، ۲؍۳۴۰ کراچی) ولا تدفع إلی ذمي لحدیث معاذ - إلی قولہ - إن دفع سائر الصدقات والواجبۃ لا یجوز اعتباراً بالزکاۃ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۰۱ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۳؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ