خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
تلبیہ کتنی آواز سے پڑھا جائے؟ سوال(۱۲۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تلبیہ زور سے پڑھنا افضل ہے یا آہستہ؟ اگر زور سے پڑھنا افضل ہے تو کتنی بلند آواز سے پڑھا جائے؟ بہت سے لوگوں کو حج کے موقع پر دیکھا گیا کہ تلبیہ میں غایت درجہ آواز بلند کرتے ہیں، اور آواز میں آواز ملاکر زور سے تلبیہ پڑھتے ہیں، نیز عورتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مردوں کے لئے تلبیہ قدرے آواز سے پڑھنا مسنون ہے، مگر اس قدر بلند آواز سے بھی نہ پڑھے کہ تکان ہوجائے، اور عورت بہرصورت تلبیہ آہستہ آواز سے پڑھے گی؛ تاکہ کوئی اجنبی نہ سن سکے۔ اسی طرح آواز میں آواز ملاکر اجتماعی طور پر تلبیہ پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ عن خلاد السائب الأنصاري عن أبیہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أتاني جبرئیل علیہ السلام فأمرني أن آمر أصحابي ومن معي أن یرفعوا أصواتہم بالإہلال - أو قال: بالتلبیۃ، یرید أحدہما۔ (سنن أي داؤد، المناسک / باب کیف التلبیۃ ۱؍۲۵۲ رقم: ۱۸۱۴) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: لا تصعد المرأۃ علی الصفا والمروۃ ولا ترفع صوتہا بالتلبیۃ۔ (سنن الدار قطنی ۱؍۲۸۷ ورجالہ ثقات) ویسن أن یرفع صوتہ بالتلبیۃ بشدۃ من غیر أن یبلغ الجہد في ذٰلک کي لا یتضرّر۔ (غنیۃ الناسک ۷۴، ومثلہ في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۳، ہدایۃ ۱؍۲۴۰، البحر العمیق ۲؍۶۵۶، منحۃ الخالق ۲؍۳۲۲ کوئٹہ) والمرأۃ لا ترفع صوتہا بالتلبیۃ۔ (فتاویٰ سراجیۃ ۱۷۷) أو امرأۃ فإنہا لاترفع صوتہا بل تسمع نفسہا لاغیر۔( مناسک ملا علی قاری ۱۰۴)